گل زمیں کی نَنگ پہ مٹنے والے شہیدوں کے نام اُنکے بچوں کے نام
تمہاری مُٹھی میں کاہکشائیں تھیں کاہکشاؤں کی خوشبووں سے زمین ساری مہک رہی تھی جو کوہساروں کی بند آنکھوں پہ تم قرینے سے رفتہ رفتہ چِھڑک رہے تھے تمہارے ہاتھوں کے بخت
فن پہ تلاطم وقت کی نظر تھی تمہارے سینے کی آگ تھی
وہ جو فکر روشن سے لے کے دشت و دمن تلک پھیلتی جا رہی تھی
نزار و مدقوق، خستہ جسموں کی لاغری تک بھڑک رہی تھی
ستارے خوابوں کا روپ دھارے تمھاری آفاق جیسی آنکھوں میں تیرتے تھے
وہ خواب جن پہ تلاطم
وقت سوختہ تھا اُسے تمھاری فراری سانسوں کا سلسلہ جَھٹ سے توڑنا تھا
تلاطُم وقت کی بقا کا معاملہ تھا۔
ہمارے نازک، نحیف خوابوں کی ایسے عالَم میں حیثیت کیا رزیل پاوَر کے مکرُوہ سینٹرز کے جو مفادات کو کھَٹکتے وہ اعلی اقدار کی فلاحی ریاستوں کے عظیم خوابوں کو کیسے مٹی میں نہ ملاتے؟
وہ عقل و منطق کے فکر و فن کے سراپے کیسے نہ مسخ کرتے؟
یہود و ہندو کا تم کو ایجنٹ نہ کیوں بتاتے؟
کہ یہ تو یکسر بقا کے سودے کا معاملہ ہے کہ قوم_لاچار و بےاماں کا وجود کیا ہے؟
زمیں سے مطلب ہے طاقتوں کو
میں سوچتی ہوں وہ وقت آئے تمھارے بچے
شوان، ماہ نور، زید، نادر، ہزاروں ننھے
یتیم پھولوں کے ساتھ مل کر ہزاروں ہاتھوں سے
کاہکشائیں خرد کی روشن حسیں رِدائیں بلوچ کے غم کے نام لیواؤں،
راہبروں کی انا پرستی کی اندھی آنکھوں پہ رفتہ رفتہ چِھڑکتے جائیں تو جاکے
شائد ہمارے اندر کے پاور سینٹر کا زور ٹوٹے
ہمارے اندر کی سامراجی نوابیوں کا غرور ٹوٹے
مرا یہ ماتم تمھارے خوں کا نہیں ہے پیارو
تمھارے خوابوں کی رائیگانی کا ڈر ہے لاحق
کہ دشمن_جاں تو مارتا ہے، کہ وہ ہے غاصب مگر یہ ”اپنے” تمھارے خوابوں کو مسخ کرکے ہماری نابودیت پہ مُہریں لگارہے ہیں
گلوکار اُستاد منہاج مختار کے گھر پر حملہ کی مذمت کرتے ہیں۔ بی این ایم
اکنش مسئولانه مردمی به درگیری بین بی۰ ال۰ اف و جیش العدل