کچھ ضروری وضاحت ملا عمر سے جیش العدل کا کوئی تعلق نہیں ہے
میں بلوچ سرزمین كى آزادی کا ایک حمایتی ہو اور میرا اخلاقی تعلق جیش العدل سے ہے ایک بلوچ ہونے کے ناطے میں کسی بھی آزادی پسند تنظیم اور آزادی کے جہد کاروں سے رابطہ رکنے کا خواہش مند ہو ۔۔
جب ملا عمر کے پر بلوچ سرمچاورں کا حملہ ہوا تو ہم نے دیکھا کے کچھ دوست بغیر تحقیق ملا عمر کو جیش العدل اور جنداللە سے منسلک کررہے ہیں تو میں نے جیش العدل کے ایک جہد کار سے رابطہ کیا کہ یہ درست ہے کہ ملا عمر آپ لوگوں کا بندہ ہے ؟ تو دوست نے جواب دیا نہیں بلکل نہیں ہم بلکہ ایسے عناصروں کی سکت الفاظ میں مُزمت کرتے ہیں جو مقدس دین اسلام کو اپنے غیر فطری مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔
دین اسلام میں ایسے غلیز حرکات کی کوئی گنجاہش نہیں ہے
دین اسلام انسايت بھائی چارے محبت اور امن کا درس دیتا ہے ایسے عوامل بلوچ قوم اور دنیا کو گمراہ کرنے کے مترادف ہیں ۔
ہمارا ملا عمر سےنہیں گایسے کسی بھی لوگوں سے تعلق نہیں ہے جو اسلام دین کو اپنے نہ جاہز مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہے۔
،
آج جو صورت حال مشرقى بلوچستان میں پيدا ہورے ہیں تو اس سے پہلےمغربی بلوچستان میں ایسے مساحل موجود ہیں جو ہر روز ایرانی سامراج بلوچستان کے طویل و عرض علاقوں میں ہمارے بلوچ بُزرگ نوجوان دانشور علماؤ کو مذهب کے نام پر تختائے دار پر لٹکاتےآرہے ہیں مگر ہمیں یہ بہ خوبی اندازه ہے اور معلوم ہے کہ مقاصد کیا ہیں اور کس لیے بلوچ نسل کشی کا یہ نہ بند ہونے والا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ تو مشرقى بلوچستان میں بھی اب یہ سلسلہ شروع ہوا ہے ریاست اپنے قبضے کو دوم بخشنے کے لیے۔۔
آج تمام انکلابی جہد کار سیاسی کارکن دانشور سياست دان اس حقیقت کو سمجےاور اپنا ایک مثبت رول ادا کرے اور ایک گلہ اپنے لکھارى دوستوں سے جب ہم آج اپنے دوستوں کی تحریرے دیکھتے ہیں تو یقین مانے ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے كه ہمارے لكهـارى دوست بغیر تحقیق بغیر زمینی حکاحق کو دیکھ کر سمج کر ہمیں ہر روز کسی نئےتنظیم سے منسلک کرتے ہیں
بلکل یہ حق سب بلوچ عوام اور زانتکاروں کو حاصل ہے کے تعمیری تنقید کرے مگر تحقیق اور زمینی حکاحق کو مدنظر رک کر اپنے تعمیری تحریر لکھے تو یہ ایک مثبت عمل ضرور ہوگا
ایک اور ضروری بات یہ ہے کہ جنداللہ کا اب کوئی وجود نہیں ہے اب جیش العدل ہے اور جہاں تک زگریوں کا سوال ہے تو زگری پہلے بلوچ ہیں اور سرزمین بلوچستان کے وارث ہیں دین اسلام کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا کے وہ زبردستی کسی کو اسلام میں لائے اللہ تعالٰی نے انسان کو اختیار دیا ہے کے وہ کس راہ پر چلے اس کا فیصلہ اللہ رب عزت آخرت میں کريگا ۔
کسی انسان پر کوئی زور نہیں مگر ہم یہ بہ خوبی جانتے ہیں کے یہاں سُنی اور زگری کا کوئی مسلہ نہیں ہے , زگری آج نہیں بلکے ہزاروں سال سے بلوچستان میں رہ رہے ہیں پہلے تو کوئی مشکل نہیں تھا تو آج کہاں سے پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے کے زگری اس حد تک خطرناک ہوگئے ہیں کہ ان کا قتل عام کیا جارہا ہے ہم یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ زگریوں کا قتل عام ہورہا ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچوں کا قتل عام ہورہا ہے انسانیت کا قتل عام ہورہا ہے قتل عام تو وہی ہیں اب بس سامراج کی فالیسی ہیں جو تبدیل ہوچکے ہیں پہلے بھی ہورہے تھے اور آج بھی ہورہے ہیں ۔۔
تو لہذا آج بلوچ قوم کو اس امر كى ضرورت ہے کہ یک جاہ ہوکر اس صورت حال كو باریک بینی سے دیکھے اور اس سے مقابلہ کرے.
( آزاد بلوچستان زندگ بات )
’چھ ہزار بلوچ جنگجو پاکستانی فوج کیخلاف مزاحمت کر رہے ہیں‘ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کا معمہ اورانصاف کی تاخیر ۔۔۔۔۔ ارشاد مستوئی