بلوچ گلزمین ءِ جارچین

 

 وش آتکے

|

 Download Balochi Font and view Balochi text uniquely 

| گوانک ٹیوب | لبزانک | نبشتانک | سرتاک

|

Monday, February 06, 2012

ترجمان
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن

معزز!! صافی حضرات جیسا کہ آپ کو معلوم ہے بلوچستان گزشتہ کئی دہائیوں سے ریاستی جبر کا شکار ہے جس دوران آبادیوں پر آپریشن کیا گیا کئی علاقوں پر بمباری کی گئی جبکہ لوگوں کو جبری اغواہ کرنے اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا عمل روز کا معمول بن چکا ہے جو تاحال جاری ہے۔
آج واقعات میڈیا کے سامنے ہیں اور صورتحال واضع ہے اس تشویش ناک صورتحال پر مقامی سطع پر اور بین الاقوامی سطع پر مسلسل آواز اُٹھائی جارہاہے لیکن صورتحال بہتری کے بجائے مسلسل خراب ہوتی جاری ہے ظلم و تشدد اور انسانی حقوق کی پامالیاں اپنے انتہا کو پہنچ رہے ہیں ۔
صورتحال کے حوالے سے صحافی حضرات کو وقتاََ فوقتاََ آگاہی فراہم کی جاچکی ہے۔
لیکن گزشتہ دنوں کچھ سنگین نوعیت کے واقعات رونما ہوئے ہیں جوکہ صورتحال کو مزید پیچیدگی اور ابتری کی جانب لے جارہے ہیں ۔
اب ہم ان واقعات پر روشنی ڈالینگے
1) میر بختیار ڈومکی کی اہلیہ ، بیٹی اور ڈرائیور کی شہادت
13جنوری 2012 کو رات ڈیڈھ بجے کے قریب کراچی کے علاقے گزری میں میر بختیار ڈومکی کی اہلیہ بی بی زامر ڈومکی اُن کی بیٹی جانا ڈومکی اور ڈرائیور برکت ڈومکی حملہ آورں کی فائرنگ سے شہید ہوگے۔
میر بختیار ڈومکی کے اہلیہ اور بیٹی اپنے عزیز کی شادی سے واپس آرہے تھے کہ گزری کے قریب کار میں سوار حملہ آوروں نے گاڑی پر فائرنگ کردی ،اُس کے بعدحملہ آور گاڑی کے قریب آئے ، گاڑی میں موجود نوکرانی کو اُ ن سے الگ کیا گیا ۔ پہلے ڈرائیور برکت ڈومکی کو گولی مار کر شہید کیا گیا اُس کے بعد بی بی جانا کو جن کی عمر 13 سال تھی کو قریب سے متحد گولی مار کر ماں کے سامنے سفاکی سے شہید کیا گیا ۔پھر اس کے بعد بی بی زامر جن کی عمر 32 سال تھی کو گولیا ں مار کر شہید کیا گیا۔
اس واقع میں ریاستی خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کے واضع شوائد ہیں ۔جو کہ گزشتہ عرصوں سے بلوچستان میں قتل و گارتگری کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ۔
واضع رہے کہ بی بی زامر ڈومکی بلوچ آزادی پسند رہنما براہمدغ بگٹی کے بہن جبکہ بی بی جانا ڈومکی اُن کی بھانجی ہیں جبکہ میر بختیار ڈومکی اُن کے کزن ہیں ۔
خاندان کے ذرائع کے مطابق طویل عرصے سے انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔
نواب اکبر خان بگٹی کے شہادت کے بعد سے فورسزوقتاََ بوقتاََ علاقے کے لوگوں کو تنگ کرتے رہے ہیں ۔
حالیہ واقعات سے واضع طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے سیاسی رہنماﺅ ں کے خاندان کے افراد کو ٹارگیٹ بنارہے جو کہ انتائی تشویش ناک بات ہے جوکہ ریاستی اداروں کی بے لگامی اور تمام انسان حقوق کی خوانین کی سنگینی خلاف ورزی ہے
جبکہ کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں اس وقت سیکورٹی کے انتظامات سخت ہیں وہاں حملہ آوروں کی اس طرع کھلے عام کاروائی جہاں AK 47 استعمال ہواہے واقع کے بعد فرار ہونا خود سیکورٹی اداروں کا اس میں ملوث ہونے کی ثبوت ہیں ۔
جبکہ حکومتی ادارے واقع کو بلا تحقیق قبائیلی دشمنی قرار دیکر حملہ آواروں کو تحفظ فراہم کررہے ہیں
اب ہم دوسرے واقعات پر آتے ہیں
2) حاجی محمد رمضان زہری کا شہادت
2فروری 2012کو خضدار میں حاجی محمد رمضان زہری کو شہید کیا گیا۔
24اکتوبر 2010 کو بلوچ اسٹوڈنس آرگنائزیشن آزاد کے کارکن 13سالہ مجید زہری کی مسخ شدہ لاش خضدار سے برآمد ہوئی تھی، جنہیں 18اکتوبر2010 کو خضدار کے علاقے رابعہ خضداری روڈ سے اغواہ کیاگیا تھا۔
2فروری2012 کو حاجی محمد رمضان زہری جو کہ شہید مجید زہری کے والد تھے کو خضدار میں واقع اُن کے دوکان کے سامنے فائرنگ کر کے شہید کیا گیا۔
رمضان زہری کو بلوچ آزادی کی تحریک سے وابستگی کی بنیاد پر ٹارگیٹ کیاگیا
بلوچستان میں اس وقت ریاستی سرپرستی میں مختلف جراہم پیشہ گرو اور ڈیتھ اسکواڈ سرگرم ہیں جنہیں لوگوں کو اغواہ کرنے اور قتل کرنے کی مکمل چھوٹ دی گئی ہیں جوکہ ریاستی خفیہ اداروں کی ایما پرلو گوں کو اغواہ کرتے ہیں اور قتل کرتے ہیں
3)مارگیٹ میں فوجی کاروائی
گزشتہ دنوں بولان کے علاقے مارگیٹ میں فورسز پر مسلح تنظیموں کے حملوں کے بعد فورسز نے مارگیٹ کے علاقے کی ناکہ بندی کی ہوئی جوکہ اس وقت تک جاری ہے۔جبکہ علاقے میں خواراک اور دیگر ضروریات کی شدید قلت ہوچکی ہے جو کہ لو گ با ہر نکلنے کی کوشش کررہے ہیں اُ نہیں حراست میں لیا جارہا ہے ۔ علاقے کی ناکہ بندی کی وجہ سے مزید معلومات کا حصول نا ممکن ہوگیا اور علاقے کا دیگر طریقے سے رابط منقطع ہوگیا ہے
واضع رہے کہ گزشتہ دنوں اسی علاقے میں بمباری کی گئی تھی جس میں علاقتوں کا خدشہ ہے
اس وقت علاقہ بہرانی صورتحال سے دوچار ہے لوگوں کو امداد کی شدید ضرورت ہے جبکہ انسانی حقوق اور امدادی تنظیموں اور صحافیوں کا علاقے میں جانا ممنوع ہے
جس سے صورتحال کے حوالے سے مزید معلامات کے حاصل کرنا تقریباََ نا ممکن ہوگیا ہے

4) سبی بختیار آبا د میں ریلی فائرنگ
5فروری 2012کو سبی کے علاقے بختیار آبادمیںمیربختیار ڈومکی کے اہلیہ ، بیٹی ، او رڈرائیور کے شہادت کے خلاف نکالی گئی ریلی پر فائرنگ سے بختیار آباد کے رہاشی ایک بچی سمیت 4 افراد شہیدجبکہ متحد زخمی ہوگئے۔
جن میں بندو، احمدخان، شاہل،اور ایک کمسن بچی شہید ہوگئے۔جبکہ عبدالنبی ولد میران، محمد عزیز ولد مولابخش، امیر خان ولد بچا خان، میر ہزار، سوالی ولد دہاری خان، امیربخش ولد صالح بخش، زینب بی بی ، سلمیٰ جنت، بی بی ، سمیت 12افراد زخمی ہوگئے۔
مزکورہ چند اہم واقعات کے مہینوں کے اندر ہوچکے ہیں جس سے ہم بلوچستان میں بہرانی صورتحال کی روز بروز ابتر ہوئے د یکھ سکتے ہیں ۔
گزشتہ دوسالوں میں 300سے زائد لوگوکی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی۔
اسی سال جنوری کے مہینے میں 6 مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں جن میں
1 جنوری کو بابو سلیم بادینی
۲ جنوری کو وزیر خان اوتھل
۳جنوری کو مراد محمد
13 جنوری کو محمد ابراھیم
13کو ایک ناقابل شناخت لاش اور
21جنوری کو وزیر خان کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں ۔
جبکہ 21لوگوں کو اغواہ کیاگیا جن میں
2 جنوری کو ڈاکٹر ایوب لاشاری ، مامول لاشاری ، دل میر بہار، عبدالنبی کو نصیر آبا د سے
3 جنوری کو جان فضل بگٹی ، امام الادین بگٹی، کمیسہ بگٹی، کو نصیر آباد سے
5 جنوری کو حنیف ولد دلمراد کو گوادر سے
20 جنوری کو محمد اشرف ، داد بخش ، رحیم بخش، محمد وفا کو قلات سے اغواہ کیا گیا ہے
لاشو ں کے ملنے کے سلسلے تسلسل کے ساتھ جارہی ہیں جس کیخلاف ایک طویل عرصے سے مختلف سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز اُ ٹھارہی ہیں جبکہ امریکہ بھی اس حوالے سے اسی تشویش کا اظہار کر چکا ہے جس سے صورتحال کی سنگینی کا ہم اندازہ لگاسکتے ہیں ۔
لیکن پاکستانی ریا ستی ادارے ان تما م آوازوں کو نظر انداز کرتے ہوہے مزید صورتحال کو روز بروز زبتر کررہے ہیں اور ایک انسانی بحران کی کیفیت جو کہ بلوچستان میں پیدا ہوچکا ہے اُسے اور شدید تر کررہے ہیں جبکہ ریا ستی میڈیا مسئلے کے حوالے سے انتہائی محتاط ہے اور عدلیہ بھی صورتحال کی حقیقی نوعیت سے انکار کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے فراہم کی جانیوالی گمراہ کن اعداد شمار کی بنیاد پر کام کررہاہے جو کہ بلوچ عوام اور دنیا کو گمراہ کرنے کے سواہ کچھ نہیں
پارلیمانی کمیٹیا ں اعدالتی کمیشنز اس مسلے کو کبھی حل نہیں کرسکتی کیونکہ وہ نبیادی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے ریاستی خفیہ اداروں کی سفاخانہ کاروائیوں میں برائے راست تعاون کررہی ہیں
پاکستان کے اندر اداروں کے بے لگامی کو دیکھتے ہوئے بلوچ پاکستان سے انسانی حقوق خوانین کی پابند ی کاتوقع نہیں کرسکتے ریاستی ادارے نہ کسی بین الاقومی قانون کا پابند ہیں اور نہ ہی اپنے بنائے ہوئے خوانین کا پابند ہیں ۔
ہم انسانی حقوق کے دعوے دار اور پاکستان کو تعاوان کرنے والے ممالک سے اپیل کرتے کہ وہ پاکستان کو انسانی حقوق کی قوانین کی پابندی پر مجبور کریں
ہم عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور پاکستان کو امداد دینے والے ممالک سے اپیل کرتے کہ وہ اپنی امداد پاکستان میں انسانی حقوق سے مشروط کریں ، تاکہ پاکستان امداد کے نام پر ملنے والی رقم بلوچ قوم کیخلاف استعمال نہ کرسکے اور خطے میں انسانی حقوق کیخلاف ورزیاں ختم ہوسکے۔
ہم عالمی امدادی اداروں سے اپیل کرتے ہی کہ وہ فوجی کاروائیوں سے متاثرہ علاقوں میں امداد کیلئے آگے آہیں ۔ اور خطے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ۔

ترجمان

بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن