|
|
تاریخ: 12دسمبر 2012
توتک میں شفیق مینگل نے خوف و ہراس کا ماحول پہلایا ہوا ہے۔ بی ایچ آر او
امتیاز قلندرانی کو 16 ستمبرکو ان کے دکان سے اغوا کےا تھاان کے خاندان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں
بلوچستان بھر میں رےاستی ڈیٹھ اسکواڈز لوگوں کواغوا کر کے شہید کرر ہے ہےں لوگوں کو میڈیا کے سامنے آنے سے روکھا جاتا ہے
کوئٹہ ( پ ر)بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ خضدار کے علاقے توتک میں شفیق مینگل نے خوف و ہراس کا ماحول پہلایا ہوا ہے لوگوں کو سرے عام اغوا کیا جارہا ہے اور ان کے اہلخانہ کو احتجاج سے روکھنے کیلئے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ توتک میں امتیاز قلندرانی ولد حاجی عبدالحکیم قلندرانی کو شفیق مینگل کے کارندوں نے 16 ستمبرکو دن 3 بجے ان کے دکان سے اغوا کر کے لاپتہ کر دیاتھا جو کہ تاحال لاپتہ ہےں امتیاز قلندرانی کو لاپتہ کر نے کے بعد اب ان کے خاندان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر وہ میڈیا کے سامنے آئے یا شفیق مینگل کی سرابرائی میں چلنے والے ریاستی ڈیتھ اسکوا ڈز کے خلاف آواز اٹھائی تو ا ن کو جان سے ماردیا جائیگا واضع رہے کہ امتیاز قلندرانی کے بھائی 13سالہ ندیم قلندارانی کو 2سال قبل توتک میں فوجی آپریشن کے دوران شہید کردیا گیاتھا۔توتک میں شفیق مینگل کی سربرائی میں چلنے والا ڈیتھ اسکواڈ لوگوں کو پاکستان کیلئے کام نہ کرنے اور عام بلوچوں کے قتل عام کیخلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے مسلسل اغوا کر کے لاپتہ کر رہا ہے صرف توتک میں اب تک متعدد لوگوں کواغوا کیا گیا ہے جن کی معلومات میڈیا تک نہ آسکی ہیں کیونکہ لوگوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کے اہل خانہ کو دھمکی دی جارہی ہے کہ اگر انہوں نے آواز اٹھائی تو ان کو جان سے مار دیا جائیگا جس طرع خضدار میں شہید مجید زہری کے والد حاجی رمضان زہری کو شہید کیا گیا تھا اسی طرع ان کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد کو شہید بھی شہید کر دیا جائیگا ہے۔
توتک سمیت بلوچستان بھر میں ریاستی سربرائی میں چلنے والے ڈیٹھ اسکواڈز نے خوف کا سما پیدا کیا ہوا ہے جہا ں عام لوگوں کو سرے عام اغوا کر کے شہید کیا جارہا ہے جبکہ لوگوں کو میڈیا کے سامنے آنے سے روکھا جاتا ہے جس سے اب تک متعدد لوگوں اغوا ہو چکے ہیں لیکن ان کے بارے میں معلومات سامنے نہیں آرہی ہیں بلوچستان میں ریاستی ڈیتھ اسکوڈز کی درندگی روز بروز تیز تر ہوتی جارہی ہے جسے ریاست کے تمام اداروں کی مکمل پشت پنائی حاصل ہے جب کہ بلوچستان بھر میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر کے صحافی اور انسانی حقوق کے تنظیموں کو بھی روکھا جاتا ہے تا کہ وہاں ہونے والی درندگی اور ریاستی دہشتگردی دنیا کے سامنے نہ آسکے ایسی صورتحال میں بلوچستان میں انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی پامالیاں انتہائی تشوشناک صورتحال اختیار کر چکی ہیں جبکہ عالمی اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہے ایسی صورتحال میں اگر عالمی اداروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے مداخلت کر کے اس سنگین صورتحال میں اپنا کردار ادا نہ کیا تو بلوچستان میں حالیہ بہرانی کیفیت کے اثرات اس پورے خطے پر مرتب ہونگے۔