ہیومن
رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے ماسٹر نذیر احمد مری ،ڈاکٹر رحیم بخش بلوچ اور
بلوچستان میں سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کیخلاف کراچی پریس کلب کے
سامنے احتجاجی مظاہرہ
پریس ریلیز
22جون 2012
کراچی ( پ ر) بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے ماسٹر نذیر احمد مری
،ڈاکٹر رحیم بخش بلوچ اور بلوچستان میں سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں
کیخلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔جس میں
خواتین،نوجوان،بزرگ سمیت بچوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی ۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھائے رکھے تھے جن پر بلوچستان
میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور بلوچ نسل کشی کیخلاف نعرے درج تھے
۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے رہنماوں نے کہا کہ ماسٹر نذیر احمد مری اور
ڈاکٹر رحیم بخش کی شہادت بلوچ نسل کشی کے پالیسیوں کا تسلسل ہے ۔ماسٹر نذیر
احمد مری مایہ ناز استاد تھے جو گذشتہ 32سالوں سے تعلیم کے شعبے سے منسلک
تھے شہید ماسٹر نذیر احمد مری کے قتل کا تعلق برا ہراست ریاستی اداروں سے
ملتا ہے ا س سے قبل بھی ماسٹر نذیر کو تین مرتبہ ریاستی اداروں نے جبری طور
اغواہ کیا شدید زہنی و جسمانی تشدد کے بعد نیم مردہ حالت میں چھوڑاتھا ،ماسٹر
نذیر احمد مری قوم کو تعلیم سے روشناس کررہا رہے تھے یہ عمل ریاستی اداروں
کیلئے ناقابل برداشت تھا اس لیے ماسٹر نذیر احمد مری کو 19جون 2012 کو
ارباب کرم خان روڈ کوئٹہ میں ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے فائرنگ کرکے
شہید کردیا ماسٹر نذیر احمد مری گورنمنٹ ہائی اسکول میں بطور وائس پرنسپل
فرائض سر انجام دے رہے تھے۔
جبکہ ڈاکٹر رحیم بخش بلوچ کو گذشتہ روز 20 جون 2012 کو کراچی کے علاقے ملیر
میں ریاستی ڈیتھ اسکوڈ کے اہلکاروں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا جو سیاسی و
سماجی رہنما تھے بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگانے میں
ڈاکٹر رحیم بخش بلوچ کے کردار قابل تعریف ہے ڈاکٹر رحیم بخش بلوچ کراچی کے
بلوچ علاقوں میں سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں خدمات سر انجام دے رہا تھا ۔
بلوچستان کی طرح کراچی میں بھی ریاستی خفیہ اداروں نے اپنے ڈیتھ اسکوڈ قائم
کیے ہیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ علاقوں میں منشیات فروش گروہ کو
منظم کیا جارہا ہے ان گروہ کے ذریعے ریاستی ادارے کسی بھی بلوچ کو نشانہ
بنا سکتے ہیں ۔
اس سے قبل بھی بلوچستان میں اعلی تعلیم یافتہ شخصیت کو نشانہ بنایا گیا جس
میں مایہ ناز بلوچ پروفیسر، دانشور، ادیب استاد صبا دشتیاری ،ڈاکٹر مزار
بلوچ ، ڈاکٹر باقر بلوچ سمیت سینکڑوں کی تعداد میں ڈاکٹر،اساتذہ،طلبہ،وکلائ،
کو شہید کردیا گیا تھا اور آج بھی متعد ریاستی اذیت خانوں میں انسانیت سوز
اذیت کا سامنا کررہے ہیں ۔
مزید کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں شدت کے ساتھ جارہی
ہے جبری گمشدگیاں ، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی،عام آبادیوں پر آپریشن و
بمباری اپنے تسلسل کے ساتھ جارہی ہے جس سے کوئی بھی بلوچ محفوظ نہیں ہے ،گذشتہ
روز ماسٹر نذیر احمد مری اور ڈاکٹر ر حیم بخش بلوچ کو ٹارگیٹ کرکے شہید
کردیا جبکہ تربت میں ایک بزرگ بلوچ محمد بخش کو جبری طور پر اغوہ ا کر کے
نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے جبکہ مختلف بلوچ علاقوں میں سیکورٹی فورسز
کی آپریشن و بمباری جاری ہے ۔
آپریشن و بمباری سے متاثرہ علاقے کوہلو،چمالنگ،ڈیرہ بگٹی اور سوئی کے عوام
نے بڑی تعداد میں نقل مکانی کر کے بلوچستان ،سندھ،و پنجاب کے مختلف علاقوں
میں کمپسری کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ خفیہ ادارے نقل مکانی کرنے والوں کو
دوسرے علاقوں میں بھی سکون کی زندگی گزارنے نہیں دیتی ہے ان کو زہنی و
جسمانی تشدد کرتی ہے ۔
ریاستی خفیہ اداروں و سیکورٹی فورسز نے بلوچستان میں انسانی زندگی کو بری
طرح متاثر کیا ہے ڈاکٹر ،اساتذہ،وکلائ،ادیب ،دانشور، مزدور سمیت تمام شعبہ
فکر سے تعلق رکھنے والے محفوظ نہیں ہے بلوچستان میں ریاستی اداروں نے طاقت
کی حکمرانی قائم کی ہے ۔
عدلیہ متعد بار اس بات کا اعتراف کرچکی ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے
سنگین پامالیوں میں خفیہ ادارے اور سیکورٹی فورسز ملوث ہے جس کے متعد ثبوت
عدلیہ کے پاس موجود ہے ۔
لیکن سیکورٹی فورسز اور خفیہ ادارے کسی بھی قسم کے آئین و قانون کا پابند
نہیں ہے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوںکی تمام حدوں کو پار کرچکے ہیں
انسانی حقوق کے پامالیوں پر آواز اٹھانے والے صحافی، دانشور، ادیب،وکلاءبھی
ظلم و جبر کے شکار ہوجاتے ہیں انسانی حقوق کے عالمی قانون کو پاوں تلے روند
ڈالا ہے ۔
ہم اس مظاہرے کے توسط سے اقوام متحدہ ،ایمنسٹی انٹر نیشنل،ہیومن رائٹس
واچ،ایشین ہیومن رائٹس سمیت تما م مہذب ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان
میں سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں اور بلوچ نسل کشی کےخلاف عملی اقدامات
کرے تا کہ خطے کو انسانی بحران سے بچایا جاسکے اور آپریشن سے متاثرہ علاقوں
کا دورہ کر کے تمام تر حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھے ان کے زندگی کی بحالی
کیلئے اپنی امدادی ٹیمیں بھیج کر انسانیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری
کرے۔
عالمی میڈیا کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بلوچستان کا دورہ کرکے تما م تر
صورتحال کو پوری دنیا کے سامنے واضح کرکے اپنی صحافتی ذمہ داری پوری کرے ۔
پاکستان کو امداد دینے والے ممالک اپنی امداد انسانی حقوق سے مشروط کرے
کیونکہ پاکستان کو ملنے والی امداد بلوچ نسل کشی اور انسانی حقوق کی سنگین
پامالیوں میں استعمال ہوتا ہے ۔
اقوام متحدہ پاکستان کو عالمی انسانی حقوق کے قانون کا پابند میں عملی
کردار ادا کرے ۔
ترجمان
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن