- Fryday, May 27, 2011
- Occupied Balochistan
-
اغواء نما گرفتاریاں، مسخ شدہ لاشیں اور ہمارے لیڈران پر عائد ذمہ داریاں
|
|
بلوچ گلزمین ءِ جارچین |
|
وش آتکے |
| |
| | گوانک ٹیوب | | | لبزانک | | | نبشتانک | | | سرتاک |
| |
قابض ریاست کے جرائم بلوچستان میں دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں ایسا کوئی دن نہیں کہ کسی ماں کا لختِ جِگر، کسی باپ کے بڑھاپے کا سہارہ، کسی بہن کی آبرو و عزت کا رکھوالا کسی بھائی کا بازو جسے ریاستی فوج اور خفیہ ادارے رات کی تاریخی میں گھر سے اٹھا لے جاتے ہیں یا پھر چلتی مسافر بس سے ریاستی اہلکار بندوق کی زور پر بلوچ نوجوانوں کو اٹھا لے جاتے ہیں یا پھر سرِ بازار یکِ بعد دیگرے نوجوان غائب کردیئے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھی قریب تیرہ ہزار بلوچ ورنا پیرو کماش اور ١٦٨ بچے و بلوچ خواتین پاکستانی خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں جنکا ذکر(ایشین ہیومن راہٹس کمیشن) نے اپنی رپورٹ میں بھی کیا ھے۔آخر اِن بلوچ نوجوانوں کا گناہ کیا تھا جو اسطرح پاکستانی قابض فوج نے اٹھا کر غائب کردئیے؟۔کسی آزادی پسند سیاسی تنظیم سے وابستگی یا پھر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر آواز اٹھانا یا پھر بطورِِ ایک صحافی بلوچستان میں ہونے والے ریاستی جارحیت کو اپنے قلم کے زریعے دنیا تک پہنچانے کا جرم ؟۔ بلو چ سپوت جو اپنے مادرِ وطن بلوچستان کی آزادی کے لئیے سالوں سے پاکستانی اذیت گاہوں میں ہر طرح کا ٹارچر برداشت کررہے ہیں مگر آزادی کے موقف سے دست بردار ہونے کے بجائے شھادت کو گلے سے لگا رہے ہیں،یہی وجہ ھے کہ پچھلے دس ماہ میں دو سو کے قریب بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں گلی کوچوں،پہاڑوں سے ملی ہیں جن میں سے بیشتر ناقابلِ شناخت تھیں،اور ہر گرتی لاش کو شھیدوں کے لواحقین نے بہادری سے قندھا دے کر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور اسکی شھادت کو باعثِ فخر سمجھا کہ انکا لخت ِ جگر مادرِ وطن کی آزادی کے لیے قربان ہوا ھے۔ اغواء نما گرفتاریاں جاری ہیں بلوچ نوجوان کٹتے جارہے ہیں ، دو دو ماہ پرانی مسخ شدہ لاشیں منظرعام پر آتی جارہی ھیں، جتنی بڑی تعداد میں بلو چ غائب ہوئے ہیں جنکا سالوں سے کچھ پتہ نہیں اللہ نہ کرے کہیں مزید اجتماعی قبریں بھی منظرِ عام آسکتی ھیں شھید آغا عابد شاہ، شھید سفیر اور شھید ستار بلوچ کو جسطرح قابض فوج نے اجتماعی قبر میں دفنایا تھا۔مگر ہماری آزادی پسند سیاسی جماعتیں ھر گرتی لاش کے ساتھ ایک اخباری بیان اور شٹر ٖڈاون کا اعلان کرتے ہیں، دو ٹائر جلا دیے جاتے ھیں تین دن دکانیں بند ہوتی ہیں،ابھی ایک شھید کا رسمِ سوئم بھی ادا نہیں ہوتا پھر دو مذید لاشیں گرائی جاتی ہیں، پھر وہی بند کمرے سے جاری ہونے والا بیان قوت ِ بازو پر بھروسہ ، سرخ سلام، شٹر ڈاؤن، دو ٹائر جلادیے جاتے ہیں کیا ہمارے عظیم طالبعلم شھید قمبر، شھید یاسر و شھید الیاس جان ، عظیم قومی شاعر و استاد شھید نصیر کمالان، شھید فقیر محمد شاہوانی و عبدلرحمان عارف جان اور ہمارے عظیم قومی سپاہی شھید محبوب واڈیلا، شھید حمید شاھین و شھید احمد داد جان اور ہزاروں دیگر کی قربانیوں کا قرض ہم تین دن کی شٹر ڈاؤن ہڑتال اور دو ٹائر جلانے سے ادا کرسکتے ہیں؟؟ یا پھر زاکر مجید جان، سنگت ثناء ،جلیل ریکی،ڈاکٹر دین محمد،علی اصغر بنگلرزئی اور ہزاروں بلوچ جوانوں کی سالوں سے قومی آزادی کی خاطر تشدد برداشت کرنے کے قرض کو فقط ایک اخباری بیان سے ادا کرسکتے ہیں؟؟ بلکل نہیں،،،، اگر بلو چ قومی آزادی کے عظیم شھیدوں اور بہادر اسیروں کا قرض چکانا ہے تو انکے آزادی کے فکر و فلسفے کو بلوچستان کے ہر شھر و کوچے تک عام کرنے کی ضرورت ہے، مگر اسوقت ہماری آزادی پسند جماعتیں انتہائی معزرت کے سا تھ گھروں سے ہفتوں یا پھر مہینوں میں ایک اخباری بیان جاری کرتے ہیں،تنظیم کاری کے حوالے سے کوئی خاطر خواء کام نہیں ہورہا، عوام سے علاقائی رابطہ مہم گذشتہ ایک سال سے بالکل منقطع ہے،تربیتی نشستوں کا تو نام و نشان بھی نہیں ہے، پچھلے دو تین سالوں میں جتنے بلو چ لاپتہ و شھید ہوئے ہیں کیا کبھی انکے خلاء کو 'پر کرنے کا سوچا بھی ہے؟
|
|||||