-
سرکار،سردار اور بلوچ عوام
-
وليد
عمر
بد
قسمتی سے شروع دن سے جب بلوچستان کو یکم
جولائی 1970 میں صوبہ کا دارجہ ملا تب سے اب
تک سردار ہی سرکاری کرسی کا ٹھیکہ اپنے پاس
رکھنے کو قبائلی فریضہ سمجھتاھے. 74 میں سےسب
نہیں تو چند نے ضرور وزیراعلٰی اور گورنرشپ کے
مزے لوٹے مگراس دوڑمیں سب کے سب اپنی قسمت کا
جلوہ دکھاتے رہے. اور اس گتھم گتھا میں زردار
بھی کسی سے پیچھے نہ رہے. ان سب نے پڑھ چڑھ کر
حصہ لیا. اور خوب پروان چڑھے. موجودہ صورتحال
کے تناظر میں گورنر نواب مگسی سرفہرست ہیں.
اگر عالمی ریکارڈ نہ سہی تو پاکستان میں ایک
ہی گھر سے سب سے ذیادہ وزیر ہونے کا قومی
اعزاز انہیں ضرور حاصل ہے.
ویسے تو سردار اور بلوچ عوام کے درمیان فرق
بڑا واضح ہے. لیکن اکژ لوگ اس سے قاصر ہیں.
اگر اخلاق کے دائرے میں رہ کر اس کی تشریح
کروں تو خاکہ یہ بننتا ہے.
“سردار وہ دلال ہے جس نے بلوچ کو جبرن طائف
بنا رکھا ہے، اس کے نہ چاہنے پر بھی سرکار سے
اس کا سودہ کرتا ہے.”
اسی سردار کی مہربانی سے بلوچستان نہ کسی قومی
پارٹی کا حصہ رہا ہے اور نہ ہی ماس پارٹی بنا
سکا ہے. بس ہر سردار اور زردار اپنی کرسی کے
بچائو کے لئے دیڑہ اینٹ کی مسجد کھڑی کرتے رہے.
ان پارٹیوں کا نام نہاد کردار بلوچ کی بربادی
کا ذمہ دار ٹھرا. اور ان سرداروں کا کردار تو
کل بھی اتنا اچھا نہ تھا حتٰی اپنی سرداری
رتبہ بچانے کی خاطر انگریز سامراج سرکار کے
ماسٹر مائینڈ رابرٹ سنڈیمن کی سواری کھینچا
کرتے تھے. اور آج بھی شورش زدہ بلوچستان میں
اسی کردار کو پروان چڑھا رہے ہیں اور بلوچ کو
برباد کرنے میں برابر کے شریک ہیں. اگر سرکار
نے بلوچ پر عسکری آپریشن کیا تو سردار وقت اور
جگہ کی نشاندہی کی.
بلوچ عوام تو ان سرداروں کا جنازہ کب کا نکال
چکا ہوتا اگر سرکار کی پشت پناہی ان پر نہ
ہوتی. ایک سردارزادہ تو سینٹ سیشن کے عورتوں
کو زندہ درگور کرنے کو بلوچی روایت کہتا ہے تو
دنیا کو باآور کرواتا ہے کہ سردار اور بلوچ
عوام میں نمایاں فرق واضع ہے. سردار وہ جو
عورت کو بھی زندہ درگور کرتا ہے اور بلوچ عوام
کو جسے ظالم سردار سرکار کی پشت پناہی میں
زندہ درگور کرتا ہے.اور سرکار، ہو تو اسی
سردار کو شاباش بھی دیتا ہے اور اسے وزیر
مملکت اور وفاقی وزیر بھی بنایا جاتا ہے. اور
جس نےزندہ درگور کیا وہ بھی بلوچستان حکومت
میں وزیر بن کر سرکاری مراعات کے مزے لوٹ رہا
ہے.
پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے اندر سرکار اور
سردارکی ملی بھگت نے جیل مگسی دوسروں کے لئے
نہ سہی وہ تو بلوچوں کے لئے بھی
no go علاقہ
ہے اور ادھر کے سردار کو سرکار نے آئینی
سربراہ بنا کر گورنر رکھا ہے. جھلاوان ہائوس
کے کردار سے سریاب کا بچہ بچہ واقف ہے لیکن
چیف آف جھلاوان وزیراعلٰٰی ہیں. دراجی کے عوام
کو قانونی آئینی انصاف تو دور کی بات ان کو تو
قبائلی انصاف بھی مہیا نہیں ہے. اور ادھر کا
سردار صوبائی سرکار میں سپیکر اسمبلی بنا
بیٹھا ہے. اور بلوچی روایت کے خلاف ورزی پر
سزائیں دی جاتیں تو حزب اختلاف کے واحد رکن
سردار ڈھاڈر اب تک تا حیات زندان میں چکی پیس
رہے ہوتے. مگر ادھر تو سب کچھ جائز ہے. کیونکہ
سرکار کے قانون پر سردار کی من مانی ہے.