بلوچ گلزمین ءِ جارچین

 

 وش آتکے

|

 Download Balochi Font and view Balochi text uniquely 

| گوانک ٹیوب | لبزانک | نبشتانک | سرتاک

|

Tuesday, March 06, 2012

بلوچستان مسئلہ حقائق کیا ہیں
زباد سنگُر بلوچ
معزز قارئےن!جب سے بلوچستان کے قومی تحرےک کوبےن الاقوامی سطح پر پزےرائی حاصل ہوئی اور امرےکی کانگرےس میں بلوچ قومی حقِ خود ارادےت کی بازگشت سنائی جانے لگی تب سے یہاں اےک محشر سی پبا ہو چکی ہے سےاسی حلقے بھی نہ آﺅ دےکھتے ہیں نہ تھاﺅ اپنی مرضی و منشاءکے مطابق بےانات پہ بےانات دیے جا رہے ہیں اور دوسری طرف میڈےا اور خاص کر الیکٹرونک میڈےا نے گوےا آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے جس ٹی وی کی طرف رےموٹ گھماﺅ بلوچستان کے بارے میں بے سروپا گفت وگو سننے کو ملتی ہے جس سے اےسا لگتا ہے کہ بلوچ قومی تحرےک کے خلاف اےک کمپین سی شروع ہوچکی ہے۔ہر اےرے غےرے لتو خےرے اپنی بے وقوفی کا اظہار بڑی فخر سے کرنے لگا ہے۔لیکن اس میں اےسے بھی لوگ موجود ہیں کہ وہ واقعی مخلص ہیں مگر وہ سرے سے جانتے نہیں ہیں کہ اصل میں یہ مسئلہ ہے کیا۔اس لئے وہ اپنی دانست میں اس کا اےک حل تلاشتے ہیں جو کسی بھی طرح قابل عمل نہیں ہوتا ہے اور بعض دانشور اےسے بھی ہیں کہ جانے بوجھے مسئلے کو کوئی اےسی شکل دےنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ لوگ جو اصل مسئلے سے ناواقف ہیں اُن کو گمراہ کیا جا سکے۔جس سے مسئلہ مزےد پیچیدہ ہ جاتا ہے
مجھے گزشتہ دنوں اےک نجی ٹی وی چےنل کے اےک معروف پروگرام کو دےکھنے کا موقع ملا جس میں اےک اتہائی قابل اور معروف صحافی جو کسی زمانے میں بلوچ قومی تحرےک کے بہت قرےب بھی رہے ہیں اور اےک کامرےڈ اور روشن فکر اور غےر استحصالی نظرےہ کے حامل شخصےت جانے جاتے ہیں کی اس مسئلے میں دلائل سنے جب انہوں نے بھی بلوچستان کی تارےخ اور تحرےک کو عوام کے سامنے غلط رنگ میں پیش کیا جس سے اےک طرف بہت ہی افسوس ہوا تو دوسری طرف ہم نے سوچا کہ کیوں نہ بلوچستان کا مسئلہ اےمانداری کے ساتھ تارےخی حوالے سے لوگوں کے سامنے رکھا جائے تاکہ وہ لوگ جو کم از کم چاہتے ہیں کہ یہ انسانی مسئلہ کسی بھی طرح حل ہو جس کی وجہ سے اےک خطے میں بربرےت کا بازار گرم ہے ،ہزاروں لوگوں کو قتل و غارت گری کا سامنا ہے۔ سےنکڑوں بچوں بوڑھوں،جوانوں کی مسخ شدہ لاشےں وےرانوں میں ڈالی گئی ہیں،ہزاروں بچے بقول ہمارے اےک دوست کے کہ Every Body Knows, کہ اُن کو کس نے ماورائے قانون و آئےن گھروں سے اسکولوں و دےگر اداروںاٹھائے ہیں،بسوں سے اتارے لے گئے ہیں اورپھر No Body Knowsکہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہیں ۔لاکھوں مقامی لوگ بزور قوت دربدر کی ٹھوکرےں کھانے پہ مجبور کئے گئے ہیں،بےسےوں لہلہاتے کھےت و کھلیاں مسلے جا چکے ہیں،بےسےوں گھر بلڈوز ہو چکی ہیں۔لیکن اب بھی تجزےہ نگار ٹی وی اسکرےن پہ آکر ٹامک ٹوئےاں مارتے ہیں۔اس لئے ہم بلوچستان کے اصل مسئلے کو اختصار کے ساتھ سامنے لانے کا فےصلہ کیا ہے۔
اپنی مقصد میں جانے سے پہلے اےک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ”قلات “ دراصل یہ لفظ کلات ہے جس کے بلوچی زبان میں لغوی معنی دارالخلافہ کے ہیں بلوچستان کے طول وعرض میں اےسے کئی کلاتےں موجود ہیں جہاں جہاں سرداروں ےا نوابےن کی مرکزیت رہی ہے اسی طرح چونکہ قلات شہر پورے بلوچستان کا دارالخلافہ تھا اس لئے اس شہر کو قلات اور خانِ بلوچ کو خان قلات کہا جاتا رہا ہے۔اب آتے ہیں اپنی مقصد کی طرف ،اگر پاکستان کے قبضہ کی پیرےڈ کو نکالا جائے تو بمطابق جناب خان معظم مےر احمد ےار خان بلوچ کی کتاب” مختصرتارےخ قوم بلوچ و خوانےن بلوچ “بلوچستان مملکت کو اس وقت چھ سو سال ہونے کو ہوتے۔بلوچستان(قلات)کی سب سے پہلی معاہدہ حکومت برطانیہ سے اس وقت ہوئی جب برطانوی حکومت نے بعض علاقوں پر رےاست قلات کی حق تسلیم کی تھی۔جبکہ دوسرا معاہدہ حکومت برطانیہ ہی کے ساتھ1841 میں اس وقت ہوئی جب افغانستان کا جلا وطن بادشاہ شاہ شجاع اپنی جلا وطنی کے دوران بلوچستان میں پناہ لئے ہوئے تھے۔اس کے بعد اےک اور معاہدہ خان قلات مےر نصےر خان نوری والئی قلات اور حکومت برطانیہ کے نمائندہ جان جےکب (سی بی) کے درمیاں1854میں ہوااس معاہدے میں بشمول دوسری اہم باتوں کے یہ بھی فےصلہ ہوا تھا کہ”اس معائدے میں حکومت برطانیہ اور خان آف قلات (بلوچستان)کے درمیان دوستی کے رشتے کو ہمیشہ قائم کیا جائے گا۔(2)اس معائدہ کی رو سے خان آف قلات اس کے جانشےن اور ورثاءحکومت برطانیہ کے تمام دشمنوں کی ممکنہ حد تک مخالفت کرےں گے۔(3)حکومت برطانیہ خان قلات اور اس کے ورثاءاور جانشےنوں کو پچاس ہزار روپے سالانہ دےنے کا پابند ہوگا۔اےک اور معائدہ جسے 1854کے معاہدے کی تجدےد و توثےق سمجھی جاتی ہے جو حکومت برطانیہ کے نمائندہ کیپٹن سنڈےمن جو قلات آئے تھے اور رےاست قلات کے تعلقات اور رشتوں کو مذےد مضبوط و مستحکم کے لئے1876کو کیا گےا۔اس معاہدہ میں چارذمہ دارےاں حکومت برطانیہ کے ذمہ میں رکھی گئی تھی جس میں (1)قلات کی آزادی کا احترام بطور فرض کیا جائے گا(2)ضرورت کے وقت بطور فرض خان قلات کی ہر قسم کی مدد کی جائے گی تاکہ وہ اپنا منصب،عہدہ اور اختےارات کو برقرار رکھ سکیں(4)برطانوی ہند میں اقتدار کی منتقلی کے موقع پر خان آف قلات اور حکومت برطانیہ کے درمیان کئے گئے تمام معاہدات اور جن کی رو سے جو ذمہ دارےاں خان آف قلات پر عائد ہوتی تھےں از خود ختم ہوجائےں گی اور رےاست قلات اندرونی وبےرونی معاملات میں مکمل طورپر خود مختار ہوگی۔(3)بےرونی حملے کی صورت میں بطور فرض خان قلات کی مدد اور اس کے علاقہ جات کی حفاظت کی جائے گی۔جبکہ خان قلات کے ذمہ میں(1)حکومت برطانیہ کے دشمنوں کی حتیٰ المقدورمخالفت کی جائے گی(2)حکومت برطانیہ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ماتحتی کردار اپنائے گا۔(3)اگر خان قلات کا کسی سردار کے ساتھ جھگڑا ہو اور امن و سکون خطرے میں ہو تو حکومت برطانیہ درمیاں میں پڑ کر ثالثی کا کردار ادا کرے گا۔
جب 1935 کو خان قلات کو اس بات کا علم ہوا کہ اس کے اطلاع میں لائے بغےر اس کوگورنمنٹ آف انڈےا کے اےکٹ1935کے مطابق ہندوستانی رےاست قراردےا گےا ہے اور اسے مجلس قانون سازمیں نمائندگی بھی دی گئی ہے تو خان قلات نے اس فےصلے کی نہ صرف مخالفت کی اور احتجاج کیا اور اس فےصلے کو 1876 معائدے کی خلاف ورزی قرار دی اور اس معائدے کی ازسرنو تجدےد کا مطالبہ کیاگو حکومت برطانیہ نے خان قلات کو تسلی دی اور 1876کے معائدے کی پابندی کا وعدہ کیا مگر خان قلات کو تب بھی تسلی نہیں ہوئی اور اُنہوں نے جون 1936 کو اس وقت کے مایہ ناز وکیل اور مسلم لیگ کت سربراہ محمد علی جناح سے ملاقات کی اور اُ کو اس سلسلے میں چند نکات پیش کرتے ہوئے مشورہ دےنے کی استدعا کی۔ےوں تو وہ سات نکات تھے مگر ہم یہاں دو نکات پیش کرتے ہیں جن میں اےک یہ کہ”حکومت برطانیہ اپنی معائدات اور خصوصاً 1976 کے معائدہ کی پاسداری کرےاور دوئم سوائے کوئٹہ کے جو خاص فوجی نقطہ نظر سے بطور اجارہ حکومت ِ قلات سے حاصل کیا گےا ہے دےگر تمام قبائلی اور مستجار علاقوں کو واپس کردے۔خان قلات نے جناح کو بتاےا کہ ”میں نے جب بھی اصلاح اور تعمےر وترقی کے لئے اقدام اٹھاےا تو انگرےز مےرے آڑے آگئے اور جب اُن کو معائدات ےاد دلادےتا ہوں تو وہ ٹال مٹول کرتے ہیں۔اس پر محمد علی جناح نے جواباً کہا کہ”ےورہائی نس! میں آپ کی پوزےشن اور مشکلات سمجھ گےا میں آپ کی بلا معاوضہ قانونی معاونت کروں گا۔بعد میں خان قلات نے ماہر قانون دانوں آئی آئی چندرےگر،سر سلطان احمد،سردار بی کے مینن اور والٹن مانگٹن سے مقدمہ تےار کرواکر محمد علی جناح کے حوالے کردےا جنہوں نے اس میں چند ضروری اصلاحات کرکے بصورت ےادداشت کیبنٹ مشن اور وائسرائے ہند کو پیش کر دےا۔جس کا خلاصہ یہ تھا کہ”۔۔۔رےاست قلات اےک آزاد اور خود مختار رےاست ہے جس کے تعلقات حکومت برطانیہ کے ساتھ چند معائدات اور خاص کر1876کے معائدہ کے تحت استوار ہیں(2)رےاست قلات ہندوستانی رےاست نہیں ہے اور ہندوستان سے مراسم صرف برطانوی حکومت کے تعلقات کی بنا پر رسمی ہیں جب برطانوی حکومت کا اقتدار اعلیٰ ختم ہوجائے گا تو رےاست قلات کا حکومت برطانیہ کے ساتھ تمام معائدات از خود ختم ہوجائےں گے اور رےاست قلات کی آزادی مکمل طور پر عود آئے گی۔اس کے ساتھ انہوں نے آزاد حےثےت کے قائم رہنے کے وجوہات یہ بےان کر دیے(1)رےاست قلات کے لوگ ہندوستان کے لوگوں کے قرابت دار اور مشابہ نہیں ہیں(2)بلوچی زبان ہندوستان کی کسی بھی زبان سے کوئی مشابہت نہیں رکھتی ہے (3)جغرافےائی لحاظ سے بھی رےاست قلات ہندوستان کا حصہ نہیں ہے۔تارےخی لحاظ سے بھی رےاست قلات کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہاہے۔(4)رےاست قلات اےک ہندوستانی رےاست نہیں ہے اور نہ ہی کبھی اس کی پوزےشن ہندوستانی رےاست جےسی رہی ہے۔اور تمام قبائل چاہے وہ رےاست قلات کے اندر ہیں ےا باہر ہیں اپنا قومی تشخص قائم رکھنا چاہتے ہیں اورمحتدہ ہندوستان میں شامل نہیں ہونے کے لئے تےار نہیں ہیں خان آف قلات چاہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ ان خواہشات کے مطابق سلوک کیا جائے۔اس کے علاوہ بھی بہت ساری دلائل قلات کی خود مختار رےاست کے حوالے سے دی گئی ہیں مگر باقی ساروں کو چھوڑ کر ہم 1947کی طرف بڑھتے ہیں جب 4،جون 1947کو لارڈ ماﺅنٹ بےٹن وائسرائے ہند نے ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے پنجاب اور بنگال کے تقسےم کے بعد بنانے کا اعلان کیا ۔۔جس کے بعد محمد علی جناح نے 30جولائی کو ہندوستانی رےاستوں کے متعلق اےک بےان جاری کیا جو اس طرح ہے کہ”۔۔۔آئےنی اور قانونی طور پر ہندوستان کی رےاستےں برطانوی اقتدار اعلیٰ کے ختم ہوتے ہی آزادوخود مختار رےاستےں ہوں گی اور اپنے لئے اپنی پسند کے مطابق لائحہ عمل اختےار کرنے میں آزاد ہوں گی اُن کو اس بات کی کھلی اجازت ہے کہ وہ خواہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں شامل ہوں ےا پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں بطےب خاطر شرےک ہوں ےا پھر آزاد رہیں۔(There are,therefore,free to join either of the two dominions or remain indefendent)موخرالذکر صورت میں وہ ہندوستان ےا پاکستان کسی بھی رےاست کے ساتھ اپنی صواب دےد کے مطابق جس قسم کے تعلقات اور انتظامات وابستہ کرنا چاہیں کر سکتی ہیں۔۔۔۔۔“ آل انڈےا مسلم لیگ کی پالیسی کے تحت اس اعلان کے فوراً بعد محمد علی جناح نے بحےثےت آئےنی مشےر(رےاست قلات)خان قلات کو اےک خط بھےجا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ چونکہ رےاست قلات کا معاملہ دےگر ہندوستانی رےاستوں سے الگ ہے اس لئے رےاست کے مستقبل کے تعےناور مستجار علاقوں کی واپسی سے متعلق معاملات طے کرنے کے لئے خان قلات اپنا خصوصی نمائندہ وائسرائے ہند کے پاس دہلی بھےجے۔۔۔۔“
4اگست1947اےک گول مےز کانفرنس کا انعقاد کیا گےا جس میں لارڈ ماﺅنٹ بےٹن(وائسرائے ہند)،لارڈ ازمے،محمد علی جناح،لیاقت علی خان،خان مےر احمد ےار خان(خان قلات)سر سلطان احمد،نوابزادہ محمد اسلم خان شرےک تھے اس کانفرنس میںمحمد علی جناح نے رےاست قلات کی آزادی کی منظوری دی کہ خان قلات مےر احمد ےار خان بےگلربےگی نے پاکستان کے وجود میں لانے کے لئے اپنی اور اپنی بلوچ قوم کی خدمات کی تعرےف کی۔ جس کے بعد اےک معائدے پر دستخط کیے گئے ۔اس معائدے کی نکات کو 11اگست1947کو اےک اعلامیہ کی صورت میں آل انڈےا رےڈےو سے نشر کیا گےا۔اگلے روز نےوےارک ٹائمز اس خبر کو چھاپااور پھر13اگست1947 کو دنےا کا نقشہ شائع کیا اور بلوچستان کو اےک مکمل خود مختار اور آزاد ملک کی حےثےت سے دکھاےا۔اس معائدے کے صرف دونکات بےان کئے جاتے ہیں تاکہ مضمون طول نہ پکڑے(1)حکومت پاکستان رےاست قلات کو اےک آزاد اور خود مختار رےاست کی حےثےت سے جس کی معاہداتی تعلقات حکومت برطانیہ سے ہیں اور جس کا مرتبہ اور منصب ہندوستان کی رےاستوں سے مختلف ہے تسلیم کرتی ہے۔(2)اس امر کے لئے قانونی رائے حاصل کی جائے گی کہ آےا وہ معائدات واجارات جو حکومت برطانیہ اور رےاست قلات کے درمیان ہیں حکومت پاکستان کو ورثے میں مل سکتی ہیں ےا نہیں۔بعد میں حکومت پاکستان اور رےاست قلات کے درمیان اےک خاموش معائدہStand Still Agreementکر دےا جائے گا۔
ےوںتو اسی روز ےعنی 11اگست ہی کو رےاست قلات کی آزادی کا اعلان ہوچکا تھا مگر خان قلات نے 15اگست کو دارالخلافہ قلات میں بلوچ قوم سے بلوچی زبان میں خطاب کی صورت میں اس خوش خبری کا اعلان کیا۔اور کہا کہ خداوند کرےم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری اےک آرزو ےعنی مکمل آزادی تو حاصل ہوگئی مگر باقی دو تمنائےں ےعنی نفاذ شرےعت محمدی اور اتحاد قومِ بلوچ اب تک باقی ہے میں انشاءاﷲ تعالیٰ آخر دم تک کوشش کروں گا کہ باقی دو بھی پوری ہوجائےں۔بعض لوگ مجھے بادشاہ ےا عالی جناب جےسے الفاظ سے ےاد کرتے ہیں میں اعلان کرتا ہوں کہ میں اسلام،نبی کرےمﷺ اور بلوچ قوم کا خادم ہونے پر فخر محسوس کرتا ہوں میں اﷲ تبارک وتعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے ان ہی مقاصد کو حاصل کرنے کی توفےق عطا فرمائےں۔۔۔“
یہاں تک تو پاکستان اور بلوچستان کے درمیاں کوئی قضیہ اٹھا نہیں تھا اب تک پاکستان اےک نئی رےاست کی حےثےت سے دنےا کے نقشے پر آچکا تھا۔جس کے اےک مہینے بعد پاکستان اور بلوچستان کے درمیاں اختلافات شروع ہوگئے بعض واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ پاکستان کو برطانوی حکومت نے بلوچستان کے خلاف اقدام کرنے پہ مجبور کیا تھا۔جو بھی تھی مگر بظاہر پاکستان اپنے معائدات کے خلاف ورزی پر اتر آےا تھا۔اس سلسلے میں اکتوبر کو محمد علی جناح کی فرمائش پر خان قلات کراچی اُن سے ملنے گئے،ملاقات میں محمد علی جناح نے خان قلات سے کہا کہ ”۔۔۔۔۔میں اےک بزرگ اور دوست کی حےثےت سے آپ کو مشورہ دوں گا آپ اپنی رےاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کردےں اس سے قلات اور پاکستان دونوں کو فائدہ ہوگا۔جہاں تک رےاست قلات کے مطالبات و مسائل کا تعلق ہے وہ دوستانہ طور پر باہمی گفت وشنےد سے طے کرےں گے۔۔۔۔“جس پر خان قلات نے محمد علی جناح کو جواب دےا کہ وےسے تو اُن کی مشورے کی قدر کرتے ہیں مگر چونکہ بلوچستان کی سرزمین رواےتوں کی سرزمین ہےجس پر اُن کی(خان کی) حےثےت صرف انتظامی سربراہ کی ہےاور چار صدےوں سے ہم میں یہ رواےت چلی آرہی ہے کہ خان بلوچ ہر اہم فےصلہ اپنی قبائل کی مشاورت و آمادگی کے بعد کرتا ہے اگر بلوچستان کے مزاج اور بلوچ رواےات سے ہٹ کر میں نے ذاتی حےثےت سے کوئی فےصلہ کیا تو اس امر کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی کی بلوچ اس فےسلے پر کاربند رہیں گے ےا نہیں۔۔۔“
حسبِ وعدہ کان بلوچ نے محمد علی جناح کے کہنے کے مطابق رےاست قلات کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مسئلہ پہلی بار14،دسمبر1947 کو ڈھاڈر میں دارالعوام کے اجلاس میں مسٹر ڈی وائی فےل (Douglas Y Fell)کے ذرےعے رکھا ۔اور محمد علی جناح سے مذاکرات کے تمام احوال اےوان میں بےان کئے گئے۔ جس پر عالیجاہ مےر غوث بخش بزنجو نے تفصیلی بحث کی اور بعد ازاں عالیجاہ مولوی محمد عمر صاحب،عالیجاہ مولوی عرض محمدصاحب،عالیجاہ مولوی نور محمد صاحب،عالیجاہ مےرزا خدا بخش صاحب عالیجاہ مےر کنّر خان اور دےگر اراکین نے متفقہ طور پر الحاق کے مسئلے کو مسترد کر دےا اور صاف کہا کہ اگر پاکستان اسلامی بھائی چارہ کی بات کرتا ہے تو سر آنکھوں پہ مگر ہم بلوچ اپنی تارےخی و قومی سرزمین کو کسی دوسرے رےاست میں مدغم کرتے ہوئے قومی جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتے۔جس کے بعد 3,4جنوری1948 کو ڈھاڈر ہی میں خان قلات نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مسئلہ دارالخاص میں پیش کیا جن کو دار العوام کے فےصلے کی پہلے ہی سے ابلاع تھی اس لئے اس مسئلے پر مذےد بحث مباحچہ کو غےر ضروری سمجھتے ہوئے متفقہ طور پر (بےک زبان) ہوکر کہا کہ ہم سب اس بات پہ متفق ہیں کہ اےکسٹےشن کسی بھی صورت میں منظور نہیں ہے البتہ باعزت دوستانہ تعلقات ومعاہدہ ضرور ہونی چاہیے اور اس بات پر کہ پاکستان نے بلوچ رےاست کو تسلیم کیا ہے اس پر اس کے شکر گزار ہیں۔بعد ازاں خان قلات نے اےوان میں تقرےر کی اور اپنے پالیسی بےان دےا کہ بلوچ ملت کا دستورالعمل مطابق اصول اسلام و قرآن رہے گا۔بلوچ قوم دنےا کی باقی قوموں کی طرح اےک آزاد وخود مختار قوم ہو اور ملتِ بلوچ متحد،متفق ومنظم ہو۔ اس کے بعد انہون نے پاکستان کے بننے پر اپنی اور بلوچ قوم کی مسلم لیگ کے ساتھ اعانت اس طرح بےان کی”۔۔۔۔۔۔۔آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ عرصہ دس سالوں سے آپ کی اسلامی بلوچی حکومت تحرےک مسلم لیگ کے ساتھ نہاےت اخلاص اور روحانی جذبے کے ساتھ امداد و تعاون کرتی رہی ہے قےام پاکستان کے لئے مال و زر،تحرےر وتقرےر ہر طرح کی حماےت و ہمنوائی کا ثبوت دےتی رہی ہے ہمارا یہ طرزِ عمل اس وقت تھا جب حکومت برطانیہ بلوچستان میں ہمارے سروں پہ موجود تھی اور ہمارے اس رویے کو سخت ناپسند کرتی تھی ہماری بلوچی حکومت اور خود مےری ذات اسی وجہ سے حکومت برطانیہ کی نگاہوں میں مشتبہ تھی مگر ہم نے اس کو اپنا فرض سمجھ کر اﷲ تبارک وتعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم ہر طرح سے اس اسلامی تحرےک(تحرےک مسلم لیگ)اور قےام پاکستان کی کوششوں میں حصہ لیں گے۔ہم نے اےسا کیا اور اپنی دوستی کا کھلم کھلا ثبوت دےا ،خدا کا شکر ہے پاکستان قائم ہوگےا ہے اور اےک غےر مذہب اور اجنبی قوم کی جگہ ہماری اپنی اسلامی حکومت قائم ہوگئی ہے۔مگر حکومت پاکستان عالمِ وجود مین آتے ہی پیچےدہ معاملات میں گرفتار ہوگئی ہے اس کو حکومتِ بلوچی اور بلوچ قوم کی امداد وتعاون کی سخت ضرورت ہے ۔بلوچ قوم کی سرزمین بلوچستان میں حکومت کی پانچ سو سالہ تارےخ اس امر کی گواہ ہے ہم نے جس ملک و قوم کے ساتھ دوستی اور معائدہ کئے ہم نے اس کی ہر قےمت پر تکمیل کی ہے۔۔۔۔۔“آخر میں اےک بار پھر معزز سرداران اور دےوان خاص نے متفقہ طور پر رائے دی کہ”۔۔۔۔۔ خان معظم اس وطن کی آزادی اور خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کے ساتھ باعزت دوستانہ معاہدہ کرےں وہ اس دےوان کو منظور وقبول ہوگا لیکن یہ دےوان پاکستان کے ساتھ الحاق کو جس سے بلوچ قوم کی جداگانہ حےثےت و ہستی کے ختم ہونے کا خطرہ ہے کسی صورت میں قبول کرنے کو تےار نہیں ہے اور اگر اےسی کسی قسم کی کوشش کی گئی تو یہ 4اگست1947 کے معائدہ جاریہ مابےن پاکستان اور رےاست بلوچی اور انڈےپنڈنٹ اےکٹ مجریہ1947کے سراسر منافی ہوگی۔مسٹر محمد علی جناح فروری 1948 کو بذات کود بلوچستان آئے اور ڈھاڈر میں خانِ بلوچ سے ملاقات کی اور الحاق کا مسئلہ چھےڑا جس پر خانِ بلوچ نے اپنی خواہشات کا اظہار کیا اور اےک بار پھر ےعنی دوسری بار محمد علی جناح کی اےماءپر 25فروری کودارالعوام اور دار الخواص کا مشترکہ اجلاس بلاےا اور الحاق کا مسئلہ زےر بحث لاےا مگر دونوں اےوانوں نے دوسری بار بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کی تجوےز کو سختی کے ساتھ مسترد کیا اور باعزت دوستانہ تعلقات رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔
محمد علی جناح دوبارہ کراچی گئے اور پھر اُن کی طبےعت خراب ہوگئی ۔اس سے پہلے کئی تارےخ نوےس لکھتے ہیں کہ محمد علی جناح جو پہلے گورنر جنرل آف پاکستان تھا مگر ان کے ساتھ ان کی کابےنہ کے لوگ ہی تعان نہیں کرتے تھے جس پر اےک دفعہ انہوں نے کھل کر کہا تھا کہ مےرے جےب کے سکّے کھوٹے نکلے۔اور جب محمد علی جناح بےمار ہوئے تو تمام تر اختےارات ان ہی کھوٹے سکوں کے ہاتھ آئے ےا انہوں نے اختےارات سنبھال لئے۔اختےارات سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے بلوچستان کے بارے میں ناپسندےدہ اور احسان فراموشانہ فےصلہ کیا گےا اورلیفٹےننٹ کرنل گلزار احمد کمانڈنگ آفےسر7 بلوچ رجمنٹ کوئٹہ کو کو حکم دےا گےا کہ وہ قلات کے خلاف کارروائی کے لئے تےار رہے اور دوسری طرف پاکستان نے ہندوستان سے ملے ہوئے اپنے دو بحری بےڑے پسنی اور جےونی کی طرف روانہ کر دیے۔اس سے پہلے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا کان قلات یہ سوچ کر کراچی گئے تاکہ جناح سے مل کرمسئلے کا کوئی حل نکال دے مگر جب خان قلات اپنے دارالخلافہ میں موجود نہ تھے ان کھوٹے سکوں کو اور موقع ملا اور انہوں نے قلات پر چڑھائی کر دی ۔جس سے مجبوراً 31مارچ کو بلوچ قوم کے نمائندگاں اےوان بالا و اےوان زےرےن کی منشا و مرضی کے بغےر کان قلات کو اےک بے سرو پا الحاق پر دسخط کرنے پر مجبور ہونا پرااور پھر رےاست قلات کے مشےروں ،وزےروں کی گرفتارےاں عمل میں آنا شروع ہوگئی۔حتیٰ کہ جب خان قلات کی الحاق نامے پر دستخط کی بات بلوچستان میں پھےلی اور بلوچستان کے اےوان زےرےن اور اےوان بالا میں اس متنازعہ فیہ الحاق کے بارے میں مشترکہ اجلاس بلاےا گےا تاکہ حالات حاضرہ پر بحث کی جاسکے اور معزز اراکین قلات شہر پہنچ گئے مگر دوسری طرف اےجنٹ تو دی گورنر جنرل نے فوراً حکم جاری کیا کہ قلات اور اس کے اےوانوں کے اراکین آپس میں کسی قسم کا مشورہ نہیں کر سکتے ہیں اور آئندہ بھی ان اراکین کو مشورے کے لئے طلب نہیں کیا جا سکتا ہے اس علاقے کا نظم و نسق براہ راست حکومت پاکستان کے پاس ہے ۔
خان قلات اپنی کتاب میں اس زبردستی الحاق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ”۔۔۔۔۔۔یہ اےک انتہائی غلط، ناعاقبت اندےشانہ،احمقانہ،سنگدلانہ،اور غےر قانونی اقدام تھا اس کا ردِ عمل انتہائی شدےد ہوا بلوچ جو برس ہا برس پاکستان کے لئے ہر قسم کی قربانےاں دےتے چلے آ رہے تھے ۔بلوچ جو اس نوزائےدہ مملکت کی قابل فخر شہری اور بازوئے شمشےر زن ثابت ہونے کی خواہش مند تھے جو اس ملک سے بہترےن توقعات وابستہ کرتے چلے آ رہے تھے ماےوس،دلبرداشتہ و دل شکستہ ہوگئے ۔اُن کی تمام آرزوﺅں کا خون کر دےا گےا ۔بلوچوں کی عظےم و قدےم مرکزےت کو ےوں پاش پاش کرنا معمولی واقعہ نہ تھا ۔بلوچستان کے عوام یہ تصور تک نہیں کر سکتے تھے کہ بلوچی کی اےثار کشی اور وفاشعاری کا ےوں بھی مزاق اڑاےا جائے گا ۔وہ اپنے چار سو سالہ قدےم رواےتی سربراہ خانِ بلوچ کی خدمات جلیلہ اور بے پناہ ذاتی اور قومی قربانےوں کا یہ صلہ پاکر حےران و ششدر رہ گئے۔سےاسی فضا مکدر ہوگئی اُن کے اعتماد کا خون کیا جا چکا تھا اور وہ سخت ہیجانی کیفےت میں بغاوت پر آمادہ ہو رہے تھے ۔دوسری طرف اس لغو عمل کا ردِ عمل ہمسایہ ممالک میں بھی ہوا۔
(1) افغانستان پاکستان سے بد دل ہوگےا اور اس نے معائدانہ روش اختےار کی ۔(2)نظام دکن نے جب بلوچوں کے ساتھ پاکستان کی بد سلوکی اور ذلت کا برتاﺅ دےکھا تو شکستہ خاطر ہوکر حفظ ِما تقدم کے طور پر ہندوستان میں شمولیت اختےار کرنے پر مجبور ہوگےا۔(3)مہاراجہ کشمیر جو اپنی رےاست کی مسلمان اکثرےت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں شمولیت کا فےصلہ کر چکا تھا نے پاکستان کی ظالمانہ روش کو دےکھ کر اپنا فےصلہ تبدےل کر دےا اور ہندوستان میں شمولیت اختےار کر لی(4)خلیج العرب کے شےوخ کی ہمدردےاں جو شروع شروع میں پاکستان کی تحرےک کے ساتھ تھےں قےام پاکستان کے بعد بلوچوں سے ناروا سلوک کے سبب ختم ہوگئےں اور اُن کا جھکاﺅ ہندوستان کی طرف ہوگےا۔
اور 16مئی1948 کو شہزادہ عبدالکرےم بلوچ گورنر مکران نے اپنے پانچ ہزار ساتھےوں کے ساتھ تحرےک آزادی بلوچستان کی بنےاد رکھ دی جو بڑھ کر آج کی شکل اختےار کر چکا ہے۔
(اس مضمون کے اندراجات خان قلات مےر احمد ےار خان کی کتاب”مختصر تارےخ بلوچ اور خوانےن بلوچ،ڈاکٹر عبدالرحمن براہوئی کی کتاب ” بلوچستان اور پاکستان(الحاق کی کہانی حقےقت کی زبانی)“مےر گل خان نصےر کی کتاب” تارےخِ بلوچستان“ اور چند دےگر مضامین لئے گئے ہیں