بلوچ گلزمین ءِ جارچین

 

 وش آتکے

|

 Download Balochi Font and view Balochi text uniquely 

| گوانک ٹیوب | لبزانک | نبشتانک | سرتاک

|

Posted - Thursday, February 25, 2010

بنامِ خادمِ پنجاب میاں شہباز شریف۔۔۔۔
سن 2000ءسے پہلے بلوچستان کے بلوچوں میں تعلیم کا رجحان کم تھا ۔جو 2000ءکے بعد بڑھ رہا تھا جس کو دیکھ کر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بوکھلاہٹ کا شکار ہوا اور اس نے بلوچستان کے پسماندہ تعلیمی اداروں میں پاکستان آرمی کی چیک پوسٹیں قائم کر کے بلوچوں کو بہ زور شمشیر تعلیم جیسی نعمت سے دور رکھا ہے۔جن میں بلوچستان یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج،ٹیکنیکل کالج کے علاوہ بلوچستان بھر کے دیگر تعلیمی ادارے آرمی کی ظلم و زیاتیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں جہاں آئے روز اساتذہ اور طلباءکو تنگ کر کے بلوچ طلبہ کو زہنی طور پر ٹارچر کیا جا رہا ہے۔اس لیے ہم بلوچستان سے پاکستان کے صوبہ پنجاب میںاپنے ہی خرچے پہ تعلیم کے حصول کے لیے آئے ہیں۔لیکن یہاں مسلم لیگ (ن) کہ اسٹوڈنٹ ونگ (ایم۔ایس۔ایف)آئے روز بلوچ طلباءپرپنجاب کے تعلیمی اداروں میں قاتلانہ حملہ کر رہا ہے
23 جنوری2010ء ایم ۔ایس۔ایف ساھیوال کے فاروق کمبو، امداد صابری، یاسر، مالک عبداللہ، شیخ شاہد ، شاہد جٹ، مغنم اپنے کہی ساتھیوں سمیت رات ایک بجے گورنمنٹ ٹیکنیکل کالج ساھیوال میں زیرِ تعلیم بلوچ طلباء ناصر بلوچ، جاویدبلوچ، اشفاق بلوچ، فیض الحق بلوچ اور ثناءپختون پر پوری منصوبے کے ساتھ حملہ کر کے انھیں شدید زخمی کر دیا تو بلوچ طلباءنے پولیس اسٹیشن جا کرایف ۔آئی ۔آر کٹوایا لیکن ایف۔آئی۔آر پر کوئی تفتیش نہیں کی گئی۔اور میں یہاں یہ بات واضح کرتا چلوںکہ مسلم لیگیوں نے بلوچ طلبہ پر اس لیے حملہ کیا کہ وہ مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن (ایم۔ایس۔ایف) میں شمولیت کے لیے تیار نہیںتھے۔بلوچ طلبہ کا موقف تھا کہ وہ اتنے دور پڑھنے کےلئے آئے ہیں نہ کہ کسی پاکستانی تنظیم میں شمولیت یا سیاست کرنے کے لیے۔
اس حملے کے بعد مسلم لیگ ونگ کے چیئرمین عبدلغنی، صدر ایوب ڈوگر، یونین صدر ساجد دوجا نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملتان ٹیکنیکل کالج میں زیرِ تعلیم بلوچ طلباءپر۳ قاتلانہ حملہ کیئے ۔پہلا حملہ ۷ فروری،دوسرا حملہ۹فروری اور تیسری مرتبہ۱۱فروری اسلحہ(پستول) کے ساتھ حملہ کیا۔ جس میںفیصل بلوچ،ہارون بلوچ،کبیر بلوچ،ناصربلوچ،چاکر بلوچ،عاصم بلوچ سمیت 10 بلوچ طالبعلم زخمی ہوئے۔ملتان ٹیکنیکل کالج میں زیرِ تعلیم تمام بلوچ طلبہ مسلم لیگیوں کی بار بار حملوں سے تنگ آکر مجبوراََ تعلیم ترک کرکے واپس بلوچستان چلے گئے۔کوئٹہ ، لاہور اور کراچی پریس کلبوں میں پریس کانفرنس اور مظاہرے بھی کئے اور وہاں کے نام نہاد پارلیمینٹرین سے بھی ملاقاتیں بھی کی۔ لیکن کسی نے بھی نہ انسانی دوستی اور نہ ہی اپنی سیاست چمکانے کے لیے اس شرم ناک واقعات کے خلاف آواز بلندکرنے کی زحمت نہیں کی۔
19 فروری کو مسلم لیگ والوں نے اک بار پھر فیصل آباد ٹیکنیکل کالج میں بلوچ طلباءکو اپنے حملے کا نشانہ بنایا جس میں مول جان بلوچ، اکرام بلوچ،چنگیز بلوچ،اجمل بلوچ، جہانگیربلوچ، صدیق بلوچ، مہراللہ بلوچ زخمی ہوئے ۔اور اگلے روز دوبارہ کالج میں آکرمسلم لیگ کے غنڈوں نے آکر معصوم بلوچ طلبہ پر فا ئرنگ کی جس میں طلباءجانی نقصان سے بال بال بچ گئے۔اور ابھی تک ہمیں ایم ایس ایف کی جانب سے تعلیم ادارے اورپنجاب چھوڑنے کی دھمکیاں مل رہے ہیں۔واضح کریں کے ہم لوگ یہاں پر مجبوراََ َتعلیم کے مقصد سے آئے ہیں نہ کے کسی کی سرزمین پر قبضہ کرنے کے لئے ۔مگر پنجاب میں ہم لوگوں کے ساتھ غیر انسانی برتاﺅ برتا جارہا ہے اورہمیں انڈیا کے ایجنٹ اور کافر کے لوازمات دے رہے ہیں
یاد رہے کہ آپ جناب نے اپنے دورہِ بلوچستان پر کوئٹہ میں اعلان کیا تھا کہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے طلباءکیلئے مختص کوٹہ بڑھادیا جائے گا ۔ مگر کوٹہ بڑھاناتو کیا ؟؟ آپ کے اپنے ہی پارٹی کی تشکیل دی ہوئی اسٹوڈنٹ ونگ بلوچ طلباءپر سوچھے سمجھے منصوبوں کے تحت بار بار حملہ کر کے ہمیں زبردستی تعلیم سے محروم کرنے کی کوشش کیا جا رہا ہیں۔
ہمیں پنجاب بھر میں سکیورٹی فرہم کی جائے اور بلوچ طلباءپر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف تفتیشی کاروائی چلائی جائے۔ اگر ہمیں سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی تو ہم لوگ مجبوراََ تعلیم ترک کرکے پسماندہ بلوچستان کا رخ کرینگے اور اس کی تمام تر زمہ داری پنجاب حکومت پر عائد ہوگی۔


بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی پنجاب ۔