بلوچ گلزمین ءِ جارچین

 

 وش آتکے

|

 Download Balochi Font and view Balochi text uniquely 

| گوانک ٹیوب | لبزانک | نبشتانک | سرتاک

|

Sunday, February 14, 2010

روزنامہ جنگ کے 12فروری کے اخبار میں لاپتہ بلوچوں کے بازیاب ہونے سے متعلق رپورٹ صحافتی بد دیانتی
 BNM‏ Sunday, February 14, 2010

 

کوئٹہ ( پ ر )بلوچستان کے نوجوان لاپتہ نہیں پاکستانی ایجنسیوں کے عقوبت خانوں میں بند ہیں ‘ روزنامہ جنگ کے 12فروری کے اخبار میں لاپتہ بلوچوں کے بازیاب ہونے سے متعلق رپورٹ صحافتی بد دیانتی ‘جھوٹ پر مبنی اوریکطرفہ ہے ‘ اخبار نے وہی رپورٹ شائع کیا ہے جسے پاکستانی سپریم کورٹ بھی مسترد کرچکا ہے ‘ اخبار میں شائع شدہ فہرست جعلی اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے مطمئن ہونیکے بارے میں رپورٹر کے ریمارکس گمراہ کن ہیں ‘ فہرستمیں چند ایسے لوگوں کو بھی بازیاب بتا یاگیاہے جوماضی میں کبھی لاپتہ افراد کی فہرست میں نہیں رہے ہیں اور جن بلوچ رہنماؤں کے سراغ لگانے کے بارے میں دعویٰ کیا گیاہے وہ ابھی تک ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں ۔انخیالات کااظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی دفتراطلاعات سے جاری کردہبیان میں کیاگیاہے ۔بیان میں12فروری کو روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہونےوالے پاکستان کے وزرات دفاع کے ر پورٹ کو مستردکرتے ہوئے کہا گیاہے کہ بلوچستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس ہزار سے زائد بلوچ مر داور خواتین پاکستانی فورسز نے اغواء کر کے غائب کردیے ہیں۔ ان میں اکثریتکوہلو ‘ کاہان اور ڈیرہ بگٹی کے لوگوں کیہے جنہیں پاکستانی فوجی جارحیتکے دوران اغواء کر کے لاپتہ کردیا گیاہے جب کہ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنان ہیں جنہیں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار وں نے اغواءکیا ہے۔ فوجی جارحیت کے دوران اکثریت کی خاندان سمیت لاپتہ ہونے کی وجہسے بلوچ سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو کوائف جمع کرنے میںمشکلا ت کا سامنا ہے جب کہ پاکستانی سر کا ر بھی انسانی حقوق کی تنظیموں کو آزادانہ طور پر کام کرنے نہیں دے رہی۔مذکورہ اخبار کی شائع شدہ خبرلوگوں کو ماورائے عدالت گرفتاری کے بعد لاپتہ کرنے والے پاکستان کی خفیہ اداروں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش ہے۔پاکستانی میڈیا کی طرف سے بلوچستان میں مسلسل ریاستی جراہم کی پردہ پوشی کیے جانے کی وجہ سے بلوچوں کوپاکستانی میڈیا پر بھی اعتماد نہیں ۔مذکورہ رپورٹ میں بی ایس او (آزاد)کے لاپتہ رہنماء ذاکر مجید کو دبئی‘ بی این ایم کے مرکزی سینٹرل کمیٹی کےرکن ڈاکٹر دین محمد کو وڈھ میں سردار اختر مینگل کی رہائش گاہ میں مقیمبتا یاگیاجو کہ ابھی تک پاکستانی ایجنسیوں کے عقوبت خانوں میں بند ہیںاوربلوچستان بھر میں ان کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہر ے کیے جارہے ہیں۔ چند ایسے لوگوں کو بھی رپورٹ میں لاپتہ افراد کی فہرست میں ظاہرکیاگیاہے جن کے لاپتہ ہونے کے بارے میں کبھی دعویٰ نہیں کیا گیاہے۔ انمیں گوادر کے شہری زاہد کریم اور بی آر پی گوادر کے رہنماء احمد داد شاملہیں ۔ البتہ احمد داد کونواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے سلسلے میں ہونےوالے مظاہروں کے دوران پولیس نے گرفتار کیا تھا ۔دوران حراست خفیہ اداروں کے اہلکار انہیں اذیت دیتے رہے ۔بی آرپی کے مذکورہ رہنماء عدالت سےضمانت پر رہائی کے بعد پاکستانی ایجنسیوں کی طرف سے ماورائے عدالت اغواءاور قتل کیے جانے کے خدشہ کے باعث آزادانہ سر گرمیاں نہیں کرسکتے اورعدالت میں اپنے خلاف حکومت کی طرف سے قائم کرد ہ جھوٹے مقدمات کا دفاعکرنے سے بھی قاصر ہیں۔ فہرست میں مبینہ طور پر گوادرکے شہر ی ظاہر کیےجانے والے شبیر دشتی نامی شخصکو گوادر میں کوئی نہیں جانتا البتہ بی آرپیکے ایک دوسرے رہنما ء صابر دشتی کو بھی 2006میں ایک نجی معاملے کو بہانہ بناکر گرفتاری کے بعد بوگس مقدمات میں قید گیاکیا تھا جسے بعدازاں عدالت نے باعزت بری کردیا ۔بی آرپی کے ان دونوں مقامی رہنماؤں کی گرفتاری اوررہائی سے متعلق مقامی اخبارات میں تفصیلات شائع ہوتی رہی ہیں جو کہ پاکستان کے وزارت دفاع کی رپورٹ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے مستند دلیل ہیں ۔

 

روزنامہ جنگ 12فروری