- عبدالحمید ریگی
عبدالحمید ریگی اور مولوی
عابد گهرام زهی
- پھرہ/ پچلھے دنوں ایرانی حکومتی ادارہ نشریات (ارشاد) کی توسط سے بلوچستان
پھرہ میں 2009/07/01 ایک بڑے مجمع عام کا اھتمام کیا گیا ، جس میں بلوچستان بھرسے
مختلف مکبتہ فکر اور بلوچ معزیزین کو دعوت دیگئی تھی۔ اس مجمع عام کا اصل مقصد حکومتی
پروپیگنڈہ کے ذریعے بلوچوں کو انکے قومی جھد وجھد اور مذھبی حقوق سے منحرف
کرانا اور عام لوگوں میں خوف اور یہ تاثر پیدا کرنا ھے کہ حکومت کسی بھی مخالف کو
چاھے تو ذلیل و خوار کرسکتی ھے اس ھتکھنڈے تحت وھاں دو بلوچ قیدی جن میں عبدالمالک
ریگی کے بھائی، عبدالحمید ریگی جن کو ایرانی حکومت نے پاکستان کو بڑی رقم فراھمی کے
بعد پاکستان سے ایران منتقل کیا دوسرا قیدی سرباز نصیرآباد کے رھائشی مولوی عابد گهرامزهی
جنھیں پچلھے سال 2008/03/29 گرفتارکیا گیا۔ جنھیں ایرانی حکومت نے جنداللہ سے رابطے اورحکومت
دشمنی سرگرمی کے الزام لگا کر انھیں اظہار ندامت اور اپنے کئے کا اعتراف کرانا اور جنداللہ کے
خلاف نفرت پیدا کرنا تھا ، انھیں اعتراف کروانا
, ایرانی حکومت کی عوام اوربلوچ دوست پالیسی
کی تعریف اور ستائش تشدّد اور فریب کے ذریعے ھی کیا گیا
- یہ بات توّجہ کےقابل ھے کہ
اس مجمح عام میں لوگوں کو یہ تاثر دیا گیا کہ یہ دو قیدی حکومتی حمایتی
- اورحکومت پالیسیوں کی تائید کرتے
ھیں توعبدالحمید ریگی کو ایران منتقل کرنے میں ایرانی صدر احمدی
- نژاد اورایرانی وزیرخارجہ اور بلوچستان کے گورنر باربار اسلام آباد اور کوئٹہ کا چکر کیوں لگاتے رھے
اور رحمان ملک کو اتنی بڑی رشوت دینے کی کیا ضرورت پیش آئی۔
- یاد رھے پچلھے مہینہ ایرانی حکومتی نیوز ایجسنی نے اطلاع دی کہ عبدالحمید ریگی کو ایک
دوسرے بلوچ کے ھمراہ پھانسی دیگئ تھی اب حکومت ا سے زندہ مجمع میں لاچکی
ھے، البتہ انکے مطابق وہ دوسراعبدالحمید ریگی تھا اور جسکی لاش نہ کسی کو دیگئی نہ اس
نام کے کسی شخص کو پھانسی دی گئی یہ محض ایک مذاق تھا, جو بلوچ سرزمین پرروا ھے اور
اس سے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کئے جائیں
ان دو افراد بلوچ کو معزیزین اورعلماہ دین کے اس بڑے جلسہ کے سامنے لاکر اعتراف کروانا ،حکومتی
تشدّد اورٹارچر کے ذریعے ھی ممکن ھے۔ ایرانی حکومت کا اپنے قرون وسطی ،غیرانسانی اوراس
توھین آمیزعمل انسانی حقوق کے جرم کے مترادف ھے۔ ایرانی حکومت ھمیشہ کی طرح بلوچ
فرزندوں کوملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث، جندالللھ سے رابطہ کا اور منشیات فروشی کا الزام لگا
کر سینکڑوں نوجوانوں اورعالم دینوں کو پھانسی دی جا چکی ھے اور اسی طریقے کے مجمع عام
میں اعتراف کروانا اورانسانی قدروں کی توھین ان کے بلوچ دشمنی ھتکھنڈوں کےسوا اورکچھ نھیں
ھوسکتا۔ اس عمل کی جتنی بھی مذّمت کی جائے کم ھے۔ اوران افراد کو مجمع عام میں لانا
اورافکارعمومی کا حمایت حاصل کرنا اور انھیں مجرم قرار دیکر انھیں پھانسی دینے کا راستہ ھموار
کرانا ھے۔
ان قیدیوں کی جرات کو سلام جو ایرانی رژیم کی ظالمانہ رویہ اور ڈیکٹیٹرنظام کی دشمنی اور مخالفت
مولنے کا اعتراف کرتے ھیں انکا اعتراف انسانی حقوق اور آزادی کی کے جھد وجھد کو مزیز تقوّیت
دیتا ھے. ان ظالموں کے خلاف نفرت اور دشنمی کے سوا کچھ باقی نھیں بچتا اور ایرانی حکومت کے
یہ حربے اسکی سیاسی موت ھے ۔
-
