بلوچ گلزمین ءِ جارچین

 

 وش آتکے

|

 Download Balochi Font and view Balochi text uniquely 

| گوانک ٹیوب | لبزانک | نبشتانک | سرتاک

|

کشتی ڈبونے والے

قاضی داد محمد ریحان

ضروری نوٹ

اس مضمون میں روزنامہ انتخاب میں چھپنے والے امان اللہ گچکی کے مضمون ”اور کشتی ڈوب گئی “ اور بلوچستان کے چھوٹے بڑے کرداروں کے خیالات پر ایک خاص اسلوب کے اندر کے تنقید کی کوشش کی گئی ہے ۔اسلوب کی وجہ سے تحریر میں بلوچ شہداءکے ناموں کے آگے شہیداور باباخیر بخش و دیگر قومی رہنماﺅں کے ناموں کے ساتھ قومی القاب استعمال نہیں کیے گئے ہیں ۔

مجھ میں صورت خان جتنی ذہانت نہیں اس لیے بلوچ اور بلوچستانی کا فرق نہیں جانتا۔اخبار بینی کا شوق ہے شہہ پاکر لکھتا بھی ہوں ۔جناب انور ساجدی کاممنون ہوں کہ انہوںنے ایک جملہ ”وقت اور حالات کا ادراک کیے بغیر بڑی بے جگری سے لڑتے ہوئے اپنی جان دیدی “لکھ کر مجھ سے ”غلام محمد کی سیاسی بصیرت “قلمبند کروایا ۔اب امان اللہ گچکی کا زیر بار ہوں جو”اور کشتی ڈوب گئی جیسی “شاہکار تخلیق کر کے مجھے اپنی طرف متوجہ کرگئے ۔میں ان سا سیانا تونہیں کہ دن کو رات لکھ کر دلیل سے ثابت کرسکوں کہ میں نے دن لکھا ہے ۔خاکسار کا زیر نظر مضمون اسی کمال فن کااعتراف ہے۔

تحریر کی پیشانی پر چسپاں توجہ نامہ میں ”آزادی اظہار “بھی توجہ سے پڑھا ۔سر زمین کی محبت میں آگ اور پانی سے گزرنے کا دعویٰ کس قدر سچاہے اس بحث میں کیوں اُلجھیں مجھے تو یہ تکنیک سمجھنی ہے کہ ”آساپ “میںچھپنے پرہمارے ارسال کردہ مضامین اوربیانات میںپنجاب شاہی اسٹبلشمنٹ اور آزادی حقوق کے لفظ سے کس طرح بد ل جاتا تھا ۔دوست خبر دیتے ہیں کہ یہ دراصل کوئی صحافتی تکنیک نہیں بلکہ اخبار کے ہیڈ آفس میں بیٹھے ہوئے کسی ”رانا “نامی مدیر کاکمال تھا ۔تو سبق یہ ہے کہ لفظوں کو بھی ”آس “اور ”آپ “سے گزرنا پڑتا ہے اب کس سے گلہ کرنا مرحوم صحتیاب ہوتے تو دعا کرتے ۔انا اللہ وناالیہ راجعون ۔

آساپ کی نسبت انتخاب کی مدیرہ ذہین اور مالک ہوشیار ہیں اس لیے ان کا اخبار زندہ وجاوید بلکہ تابندہ ہے۔14اگست کو سبز اور 26اگست کوسیاہ ہوجاتے ہیں ۔ادارتی صفحے پر بدیسی مضامین کے جلومیں بانک نرگس کا قلم خون کے آنسو روتا ہے اور محترم انور ساجدی لاکھ چھپائیں ان کے مضامین میں بلوچیت کی جھلک نظر آہی جاتاہے ۔اب بلوچ لکھاریوں کی کمی ہے تو کیا کریں اخبار کا خالی پیٹ تو بہرحال بھرنا ہے ۔ قطعہ نویس اگر خون سے نہائیہوئی گلزمین کا نوحہ نہیں لکھ سکتے توآٹااور چینی کی گرانی اور مجاہد فوج کی حوصلہ افزائی کرنے میں کیابرائی ہے ؟روزنامہ توار ، آساپ اور استمان میں چھپنے والے مضامین مانا کہ بلوچ معاملات پر ہوتے ہیں لیکن انتخاب کے معیار کے تو نہیں ہیں ۔

بی این ایف والے گلہ کرتے ہیں کہ ہم بلوچستان کو مقبوضہ سر زمین سمجھتے ہیں لیکن ا نتخاب کی سرخیوں میں ہم ہی سے اسے صوبہ کہلوایا جاتاہے ۔اداریہ لکھنے والے کو جب بھی موقع ملے ہمارے خراب اُردو سے فائدہ اٹھاکر ہماری طرف سے پاکستان عرف وفاق سے مذاکرات کی حامی بھر لیتے ہیں ۔بی این ایف والے معاملے میںصرف اتنا کہہ سکتاہوں کہ اس میں بھی کوئی کار خیر ضرور ہے ۔ہم صحافت کے اُلٹے اہرام کی تکنیک کی شد بد رکھتے ہیں لیکن اتنی صحافت نہیں آتی کہ یہ معاملہ جان سکیں ضرور ”آزادی اظہار “کا چکر ہوگا ۔موقع ملے تو صور ت خان سے دریافت کر لینا میر ا نام لیے بغیر ”بلوچ اور بلوچستانی “کا فرق بھی پوچھ لیں تومہربانی ہوگی ۔

قارئین کرام !دست بستہ وسرخم معافی چاہتا ہوں ۔شروع میں عرض کرچکاہوں کہ میں کوئی تجربہ کار قلم کار نہیں نوآموز لکھاری ہوں ۔موضوع سے بھٹک جاﺅں تو درگزر فرما دیں ۔توآج کا ہماراموضوع ہے ”کشتی ڈبونے والے “ہم اگر چاہیں تو سلیس اردومیں بھی لکھ سکتے ہیں لیکن اس سے آپ کو یہ کیسے پتا چلے گا کہ جناب امان اللہ گچکی میرے ہم پلہ لکھار ی ہیں ۔اپنے درجن بھر ”قلندر کتھا“سلسلے کے مضامین کا حوالہ دینے سے مناسب یہی معلوم ہواکہ اسی مضمون میں اپنے قلم کا جوہر دکھا دوں ۔جی ہم نے مندرجہ بالا سطور انکساری میں درج کیے ہیں ۔اب کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ مجھے بالکل بھی لکھنا نہیں آتا اگر کوئی اس مضمون کو سمجھ نہ پائے تو یہی سمجھ لے کہ اسے پڑھنا نہیں آتا۔مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میرا مضمون کسی کو سمجھ میں آئے گی کہ نہیں ۔میں چند ان پڑ ھ لوگوں کے لیے اپنی ذہنی سطح سے پست اسلوب کیوں اختیار کروں ۔

آئیے کہانی شروع کرتے ہیں قصہ گوسے کون یہ بحث کرئے کہ کہانی سچی ہے یااس نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اسے اختراع کر کے مہذب کامقدس پیرہن پہنا دیا۔کہانی جب مقدس ہو تو جھٹلائی بھی نہیں جاسکتی ۔جس کتاب سے یہ نقل کی جارہی ہے وہ بھی قرآنی آیات سے مزین سبز پوش کتاب ہے۔سبز رنگ میں ویسے بھی دلوں کو تسخیر کرنے کا ایک روحانی کشش ہوتاہے اس لیے آپ پر بھی لازم ہے کہانی پر اعتراض نہ کریں ۔یہ پرانے زمانی کی کہانی ہے ۔اس زمانے کی جب پیر فلک آدم زاد کی بھلائی کے لیے بالواسطہ فوری احکامات صادر فرماتے تھے ۔کتا ب میں لکھاہواہے کہ ”خلد سے آدم کو اپنی غلطی کی وجہ سے نکالاگیا“لیکن خداکے لاڈلے کہتے ہیں کہ ”آدم کو خلد سے نکال کر فرش زمین پر اُتارنے کی یزداں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ہوئی تھی ان کے بقول آدم کا گندم تناول فرمانا بھی باقاعدہ منصوبے کاحصہ تھا“تو میں نے اپنے ایک مضمون ”یزدانی قانون میں جزا وسزاءکا منظر “میں یزداں کی وکالت کر کے بڑی غلطی کی ہے ۔ اس سے پہلے کہ خد اکے لاڈلوں کو پتا چلے میں یہ مضمون جلا کر راکھ پانی میں بہا دیتا ہوں ویسے بھی اب مجھے اس طر ح کے مضامین لکنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔پس ثابت ہوا کہ کہانی میں کرداروں کی اپنی کوئی مرضی شامل نہیں ہوتی یہ سب کہانی کار ہے جوکرداروں سے اچھے برے کام کرواتاہے ۔اچھی بری تحریریں کون لکھواتاہے ؟...............اس طرح کے پیچیدہ سوالات کی کوئی گنجائش نہیں یہ کیا سوال ہواکہ کہانی کار نے کہانی تخلیق کی تو کہانی کار کی کیسے تخلیق ہوئی ؟.......بنا تخلیق کے کہانی تخلیق نہیں ہوتی توکہانی کار کیسے تخلیق ہوئے ؟لاحول ولاقوةتمہیں خداکے لاڈلے کالے فرشتوں سے گرفتار کرواکرگمام زندان میں ڈال دیں تاکہ تمہارے کافرانہ سوالات کاخاتمہ ہو۔کہانی ایک خاص لے میں سنائی جاتی ہے تم اپنے ان سوالات کے ذریعے مجھے اس لے سے بھٹکا رہے ہو۔”یہ کہانی کشتی کی تخلیق کی کہانی ہے ۔ایک بزرگ کو مہربانی فرماکر پیر فلک نے یہ اطلاع دی کہ و ہ ناراض ہوکر کچھ دنون کے لیے فرش زمین کو غرقاب کرنے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں اس منصوبہ بندی میں قطعاًکسی بیرونی مداخلت کی گنجائش نہیں لہذا کشتی ایجاد کر کے اپنے اہل وعیال اور بستی والوں کی زندگیاں بچالو ۔“اس کہانی میں الفاظ کی درستگی کی کوئی ضرورت نہیں میں تخلیق کو تقدیس کا پابند بنانے کا قائل نہیں ۔خبردار !یہاں آپ زہر اُگلنے کا محاورہ ہرگز استعمال نہیں کرسکتے ”بزرگ نے بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں کشتی بنانے کا کام شروع کردیا ۔لوگوں کو پتاچلاکہ بزرگ کشتی ایجاد فرمارہے ہیں توٹولیوں کی شکل میں باقاعدہ پروگرام بناکر ان کا مذاق اُڑانے آنے لگے ۔انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کشتنی نہیں دیکھی تھی لیکن جانتے تھےکہ یہ کوئی پانی میں تیرنے والی چیز ہوگی اس لیے ایک خشک بنجر زمین پر جہاں نہ میلوں دور کوئی دریا ہے نہ سمندر کشتی بنانا ان کے نزدیک وقت کاضیاع اور پاگل پن تھا ۔ان کے چچورے پن کے باوجود بزرگ نے کشتی بنالی ۔پانی کا اہتما م بھی ہوالیکن جب کشتی پانی میں ڈالی گئی تووہ صحیح طرح سے تیرنے کی بجائے ”چاکی “مارنے لگی ۔اسی آن شیطان کا وہاں سے گزر ہوا۔وہ کشتی کے موجد بزرگ کی پریشانی دیکھ کر اپنی شیطانی فطرت کی وجہ سے بہت محظوظ ہوئے ۔کیوں کہ شیطان کو پتاتھا کہ بزرگ کوئی نیک کام کررہے ہیں ۔انہیں کیا پتاتھاکہ یہی عمل آگے جاکر شیطان بزرگ کے جنگی بیڑہ بنانے کا باعث ہوگا ۔ورنہ ہر گزایسی بے ہودہ حرکت نہیں کرتا۔اس نے جھٹ آدم زاد کا روپ دھار کر ۔بزرگ کو باور کرایا کہ وہ ایک زبردست قسم کا ”واڈو“ہے اور کشتی سازی سے واقف ہے ۔اس نے مشورہ دیاکہ اس کے نیچے لکڑی کالمبا ساٹکڑالگادو۔اتنے مہذب پیرائے میں بیان کروں تواصل بات نہیں کھلے گی ۔دراصل شیطانی خیال میں یہ بات ایسی تھی کہ جیسے پاخانہ کی جگہ کوئی چیزڈال دی جائے لیکن یہ گندہ مشورہ شیطان کے توقع کے برعکس کام کر گیااور کشتی نے چاکی مارنی کم کی ۔شیطان ہواس باختہ ہوگیا وہ تو کشتی کو ڈوبونا چاہتاتھا لیکن اس کی شیطانی چال نے کشتی کی رفتار اوربناوٹ میں تناسب پیدا کر کے اس کے غرقا ب ہونے کے امکانات کم کردیا ۔شیطان کی چال ناکام ہوگئی لیکن وہ بھلاکب اپنی حرکتوں سے باز آنے والا ہے ۔

رازق وبنگان کوجانتے ہو۔حبیب جالب اور مرحوم ڈاکٹر کہور خان کے دوست مرحوم ڈاکٹر کہور خان لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔غلام محمد بلوچ اکثر کہا کرتے تھے کہ بی ایس او ایسی بد بخت ماں ہے جس کے اکثر بیٹے مرحوم ہوگئے ہیں ۔ہر سال ہزاروںکی تعداد میں فارغ ہونے والے حریت پسندانقلابی کہاں گئے ۔ہزاروں کو چھوڑوسینکڑوں یونٹ کے ذمہ داران کا پتا بتاﺅ یہ بھی نہیں بتا سکتے تو بیس کے لگ بھگ مرکزی عہدیداروں کے ہی کارنامے گنوا دو۔یہ نہیں کرسکتے تودرجن بھر ایسے چیئر مین کی نشاندہی کردو جو سرزمین سے وفاداری کی قسم نبھارہے ہوں ۔
غلام محمد بلوچ ، عبدالنبی بنگلزئی ، ڈاکٹر اللہ نذراور ...............اورڈاکٹر عبدالحئی بھی ہوں گے ۔”رازق “بھی تھے مرحوم ڈاکٹر کہور خان بھی قومی زبان کی آبیاری کررہے ہیں ۔اب بھلاامان اللہ گچکی نے کب فرمایا تھا کہ وہ اور رازق آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ۔بجا فرمایا جنا ب انور ساجدی نے ”ان کے سیاسی نظریات بھی اپنے ہیں “ان سے بس اتنی سے غلطی ہوئی ہے کہ انہوںنے گچکی نواز اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جگہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستگی اختیار کی ۔یہ بالکل ایساہی ہے جیسے ڈاکٹر امداد نے بلوچ نیشنل موومنٹ میں شمولیت اختیار کر کے فاش غلطی کی تھی بھلا جس کے اپنے نظریات ہوں وہ تنظیم کے کیسے تابع ہوسکتا ہے ۔عوام کو ہمیشہقیادت کے پیچھے چلنا چاہئے اب بھلا اس سے بہتر مثال اور کیا ہوسکتاہے کہ ”میں نے انضمام کا فیصلہ کرلیا ہے جس کو میرے فیصلے پر اعتراض ہے تووہ اپناراستہ الگ کر لے ۔“اب کشتی ڈوبے کے پار لگے امان اللہ اور ڈاکٹر امداد تو اپنے نظریات سے انحراف نہیں کرسکتے ۔

کسی زمانے میں سرخ رنگ بھی سبزرنگ کی دلکش ہواکرتا تھا یقین نہیں آتا توراشد رحمان سے پوچھ لو۔رازق مرگیاہے لیکن حبیب اور کہور سے تصدیق کروائی جاسکتی ہے ۔اس رنگ نے رنجیت سنگھ چاکرخان بنادیا۔سر خے بڑے خوش تھے ۔ان کا انقلاب برآمد کرنے کا کاروبار خوب چل رہاتھا ۔ماسکو کی طرف منہ کرنے والوں کے لیے سرخ جنت کی نوید تھی ۔ان پر شباب ، شراب اور کباب کی رحمتیں نازل ہوتی تھیں۔لوگ اچھی چیزیں قیمت دے کر خریدتے ہیں سرخ بیوپاری اچھے برے کی تمیزکیے بغیرتھوک کے حساب سے خرید ار خرید رہے تھے ۔علم وسائنس کی بنیاد پر تحریک استوا ر کر نے کے دعویدار کارل مارکس ، لینن اور اسٹالن کے پیروکار عمل کے میدان میں ناتجربہ کار کھلاڑی نکلے ۔ شطرنج کے پیچیدہ داﺅ پیچ کو سلجھانے کی بجائے کھیل ہی ادھور اچھوڑ کر بھاگ گئے ۔اب بھلا مہروں کی اتنی مجال کہاں کہ وہ خود اچل اچل کر چالیں چلتے ۔جوکیا شیطان بزرگ نے آپ ہی کیا۔

امان اللہ کب آزادی کی نوید دیتے تھے وہ تو انقلاب کی بات کرتے تھے انقلاب ہلمند کے پہاڑوں کے پیچھے ہے ۔سرلٹھ تک پہنچاہے ۔کوہ سلیمان پر ہے گوادر کے کوہ باتیل کے پیچھے سمندری راستے سے آرہاہے ۔سرخے دھوکے باز نکلے انقلاب واپس چلاگیا ۔اب افغانستان سے بھی دور چلاگیا ہے دنیا میں اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ۔ چین کے ماﺅ زے تنگ کے ہتھے چڑھ چکاہے ۔جب انقلاب ہی نہیں آرہا توانقلاب زندہ باد کہنے سے کیا فائدہ پنڈی سے مجاہد فوج آرہی ہے ” لانگ لائیوٹو مجاہد آرمی “کا نعرہ لگا اور اللہ اللہ کر ۔

حسب روایت حبیب جالب اس کی تصدیق کرسکتے ہیں ۔یہ کرتب بازی کے لیے بہروپ بدلا نہیں کرتے تھے ۔یہ سوفیصد سچ ہے کہ ان کے ڈیتھ وارنٹ نکالے گئے تھے ۔ا س نے روس میں جاکر گوریلاجنگ کی ٹرینگ حاصل کی کہ روس کے برف پوش وادیوں میں کس طرح انقلاب کی حفاظت کی جائے ۔حاسدوں کی اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ انہوںنے ٹریننگ حاصل کی ہے تواس کے ہاتھ کپاس کی طرح نرم کیوں ہیں یہ کوئی افغانی مزدور تونہیں تھے کہ ان کے ہاتھوں میںچھالے پڑتے ۔ایک انقلابی ذہین لیڈر تھے ۔اپنے نوجوانی میں سرداروں کے خلاف تحریک چلائی سرداری نظام کورجعت پسندانہ کہا۔انقلاب کے لیے ہمیشہ سر بہ کفن پھرتے رہے ۔انہیں بلوچستان نیشنل پارٹی کے آگے بریکٹ میں ” مینگل “لکھناہرگزپسند نہیں ”پریکانی “بھی لکھوانا نہیں چاہتے ۔اب بھی ایک جوشیلے انقلابی ہیں یقین نہیں آتا تو تقریر کرواکر دیکھ لے ثنا ءاللہ بلوچ سمیت یہ بلوچستان کے اُن چند زیرک سیاستدانوںمیں ہیں جنہیں حق خودارادیت کیمعنی معلوم ہے ۔لشکر بلوچستان لانگ مارچ کے وقت واحد لیڈر تھے جو تمام سرکاری ناکے توڑ کر گوادر میں گرفتاری دینے پہنچ گئے جس سے لشکر بلوچستان لانگ مارچ کا باعزت افتتاح اور اختتام ہوگیا۔اگر مشرف جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی نہ کرتاتو یہ لانگ مارچ بلوچستان آزاد ہی کرلیتا ۔

حبیب جالب نے اتنی سیاست کرلی ،مرحوم ڈاکٹر کہور خان انتقال کے بعد سرکاری نوکر بن گئے ۔سردار خیر بخش مری نے غوث بخش بزنجو اور سردار عطاءاللہ مینگل سے مل کر نیپ میں شمولیت اختیار کی،اکبرخان گورنر بنے،بالاچ اور ھیر بیاراسمبلی ممبر بنے ۔ لالہ منیر الیکشن میں کھڑے ہوئے ۔غلام محمد اور عصاظفر نے مکران میں بی این ایم کے انتخابی مہم میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا تواختر جان کا اتنا حق نہیں بنتا کہ وہ سب رشتے توڑنے کی بات کر کے رشتے جوڑ لیں ؟انصاف کا تقاضاہے کہ جس طرح لونگ خان اور اسد مینگل کاخون غوث بخش کے پاﺅں کی زنجیر نہ بن سکے اسی طرح اکبر خان ،بالاچ ، غلام محمد اور رسول بخش کے لاشوں کے بوجھ بھی اختر جان کے کندھے پہ نہ ڈالے جائیں ۔

یہ کوئی کہانی نہیں ہوئی یہ توخالص بور قسم کا سیاسی مضمون ہوگیاجس میں کوئی مزانہیں جذبات کو انگیخت کرنے والے الفاظ سے خالی خشک مضمون ۔اب توہی بتا کشتی ڈبونے والوں میں رازق ، مرحوم کہور خان ، حبیب جالب ،ڈاکٹر امداد اور اختر جان وغیرہ کہاں سے آگئے ۔یہاں امان اللہ گچکی کاذکر ہونا چاہئے ۔”آزادی اظہار “کے تقاضے اپنی جگہ تنقید کابھی ایک ڈھنگ ہوتاہے یہ بھی کوئی طریقہ ہے ایک بات آسمان کی تودوسری زمین کی ۔بقول ہمارے انگور کی جگہ انار کی مثال ۔

سب باتیں لکھنے کی نہیں ہوتیں اب اگر کوئی تمہیں یہ بتادے کہ بلوچ ری پبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کوبراھندگ بگٹی کا اعتماد حاصل نہیں یہ خالصتاًڈاکٹر بشیر عظیم ، انور قلندرانی اور ڈاکٹر امداد صاحب کی فرمائش پرقائم ہے توتم یقین کر کے اس پر تنقید ی مضمون لکھنے بیٹھ جاﺅ۔میں اپنی بتاتاہومجھے تویہ بات ہرگز ہضم نہیں ہوتی کہ ثناءسنگت برملا کہتے پھرتے ہیں کہ ”میں بی ایس او کو توڑ کربی آر ایس او کو مضبوط بناﺅں گا۔ “دوستو!یہ سب سازش ہیں مجھے اصل کہانی سے بھٹکانے کے لیے ۔ثناءسنگت ایک خالص انقلابی ہیں ۔یہ بھی افواءہے کہ بی ایس او (آزاد ) بی این ایم کا پاکٹ آرگنائزیشن ہے اس رشتے کو برقرا ر رکھنے کے لیے غلام محمد نے بی ایس او کے سیشن میںبشیر زیب کوجتوانے کے لیے مداخلت کی یہ الزام سنگت ثناءکے علاوہ ہر کوئی لگاسکتے ہیں بی آرپی میں شمولیت ان کا ردعمل نہیں شعوری فیصلہ ہے .........ان جھوٹی باتوں سے کشتی کہاں ڈوبنے والی ۔میں کہانی ضرور لکھوں گا مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔چاہے میرے الفاظ میں ترتیب خیال میں گہرائی تحریر میں دم نہ ہو ۔مذکر مونث اورقواعد انشاءکے استعمال میں غلطیاں ہوں مجھے یہ کہانی ہرحال میں مکمل کرنی ہے ۔میری مرضی میں ”زرینہ “کوایجاد کہوں یااختراع یہ میری کہانی ہے میں لکھنے والا ہوں تو پڑھنے والااور میں جولکھوں گاتجھے پڑھنا ہی پڑے گا۔

میں پروفیسر صبادشتیاری کی ڈانٹ خاطر میں لائے بغیر برملا کہہ دیتاہوں کہ امان اللہ گچکی چارسوبیس فیصد درست فرماتے ہیں ۔میں پروفیسر کی آسانی کے لیے تشریح کیے دیتاہوں ۔ہم اور جناب گچکی صاحب نظریہ ڈارون کے قائل نہیں یہ ایک ملحدانہ اور کافرانہ نظریہ ہے ۔ہمارے نزدیک ننگی پیٹھ رہنے والوں کو ہرگز چادر پہننے کی خواہش کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ۔جسے آزادی کا مفہوم نہیں آتا اس کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ اس سے آگاہی حاصل کر ئے پروفیسر شکر کریں کہ ہم نظریہ ڈارون کو نہیں مانتے ورنہ ہم بند ر کو آدمی بننے اور آدمی کو غار سے نکل کرانسان بننے کی ہرگز اجازت نہیں دیتے ۔تمہارے بارے میں ویسے بھی مشہور ہے کہ تم دہریہ ٹائپ کے انسان ہو۔گلے میں جوتسبیح لٹکائے گھومتے ہویہ سب ڈھونگ ہے ۔نوجوانوں کو ورغلانے والے ڈھونگی ۔آزادی کی بات کرتے ہو۔اسلام کے قلعے کو مسمار کرنے کی بات ۔اس ملک کو خدانے بنایا ہے یہ مملکت مولابخش کبھی نہیں ٹوٹے گا۔بنگلہ دیش کی مثال نہ دواسے مولابخش کے جنرلوںنے خود آپریشن کر کے علیحدہ کر لیا جب جسم کے کسی حصے میں ناسور ہوجائے تواسے کاٹ کر پھینک دیاجاتاجنرل نیازی نے یہی کار خیر کیا۔ا ن کی عظمت کے گن گاﺅ ۔بچوں کو بہکانے والے کتابوں کے درمیان بیٹھ کرکوئی عالم وفاضل نہیں بنتا اس کے لیے گچکی صا حب جتنا خاندانی ہونا پڑتاہے ۔یہ جنرلوں کی عظمت ہے کہ انہوںنے بھوکے اور کالے کمزور بنگالیوں کوایک درخشاں تاریخدی انہیں اس قابل بنایاکہ وہ دنیاکو بتا سکیں کہ انہوں نے آزادی خیرات میں حاصل نہیں کی ہے بلکہ اس کے لیے قربانی دی ہے ۔لاکھوں لوگوں کی قربانی ، ہزاروں عورتوں کی عصمتیں لٹاکر آزادی حاصل کی ہے ۔ان ہی جنرلوں کی بدولت آج کالے بنگالی فخریہ کہتے ہیں” رابندر ناتھ ٹیگور بنگال دیش کے تھے“ ۔

ہمیں ہر حال میں اس سیلاب زدہ خطے کو خود سے جداکر نا تھا سوہم نے کر لیا لیکن سونے کی مرغی کو ہرگز ہاتھ سے جانے نہیں دیاجائے گا۔روس کمزور تھااس لیے ٹوٹ گیاپاکستا ن روس سے زیادہ طاقتور ہے ۔ستائیس رمضان المبارک میں قائم ہونے والی مقدس ریاست کبھی نہیں ٹوٹے گی ۔1971ءکے واقعے کو بھول جاتاریخ کایہ صفحہ پھاڑ کر پھینک دے ۔یہ ریاست اللہ تعالی نے بنائی ہے اس کی حفاظت بھی خود فرمائیں گے اس کے نظریاتی سرحدوں کی محافظ فوج ا س کی حفاظت کے لیے ہردم چوکس تیار کھڑی ہے ۔ڈرون حملوں کا طعنہ نہ دو۔نظریہ کا تقاضاتھاکہ ہم کالی بیوہ بننے کی بجائے اس کی عصمت دری کا مرتکب ہوں ۔اسے سادہ لفظوں میں ”سب سے پہلے پاکستان “کہتے ہیں ۔

آزادی کامفہوم ہمارے نزدیک مادر پدر آزادی ہے ۔اب یہ اپنا نظریہ ہے پیش بھی خود کریں گے ۔تم چاہئے آزادی کا لفظ ایجاد کرنے والے کا اعتراض داخل دفتر کرکے بتاﺅکہ ”اقوام کو اس جغرافیہ کے اندر جس میں وہ بودباش رکھتے ہوں ان کے قومی سیاسی ،سماجی اور معاشی اقدارکے مطابق آزادانہ زندگی گزارنے کے حق کو سیاسی زبان میں آزادی کہتے ہیں ۔“ آزادی یہی ہے کہ میں جب چاہوں تیرے ناک پر گھونسا مار وں ، دل چاہئے تو دونوں اُنگلیوں سے آنکھیں پھوڑ دوں،پتھر مار کر سر پھاڑدوں ۔پس گچکی ازم کے مطابق ثابت ہواکہ آزادی پاگل پن ہے ۔”صباجا ن بچوں کوپاگل بنانا چھوڑ دو۔غلامی کی زندگی عقلمندانہ ہے ۔قانون کی پاسداری کرﺅ حکومتی رٹ کو چیلنج کیا تو”ایسی جگہ سے ہٹ کریں گے کہ پتا بھی نہیں چلے گا۔“تم ایسے میزائلوں کو روک نہیں سکتے توغلامی قبول کر لو۔“یہ دشت خاری نہیں جناب امان اللہ کی منطق کی زبان ہے ۔

آسانی کے لیے مزید تشریح ملاحظہ فرمالیں آزادی ایک مبہم لفظ ہے کیوں کہ انگریزی میں اس کے تینمتبادل الفاظ موجود ہیں ۔اب اس کولاحقہ سابقہ بناکر استعمال کیاجائے تویہ لفظ اور بھی الجھتاجاتاہے ۔ان الجھنوں کو سلجھاناخیر بخش مری ، عبدالنبی بنگلزئی اور عصاظفر جیسے بچوں کاکام نہیں ۔اس لیے جناب امان اللہ نے یہ واضح اعلان کیا ہے کہ” اس عمل کوہم بچوں کے حوالے نہیں کرسکتے ۔یہ ایک قومی جرم ہوگا۔

پروفیسر صباجان تمہیں کتابی کیڑا ڈاکٹر حمید کی صحبت نے گامڑ قسم کا پروفیسر بنادیاہے اتنی سادہ بات نہیں سمجھتے ۔مضمون میں یہ واضح ہے بانک کریمہ ، شکر بی بی ، گل ناز ، سومری گل اور نائلہ قادری جیسے صنف نازک سے تعلق رکھنے والی عورتوں کا ”آزادی “کی جدوجہد میں ڈنڈے کھانا،خون بہانا، مفلوج ہونا،بیوہ بننا ، زرینہ اور ماریہ کی طرح اغواءہونا فضولیات کے سواءکچھ نہیں ۔ان کو ہوش کے ناخن لینا چاہئے کشیدہ کاری کے ذریعے ترنگے بناکر انہیں آزاد بلوچستان کے بیرک کانام دیناالگ بات ہے آزادی کے لیے سرخا ب کے پرچاہئے ۔خداکامقدس بندی بننا پڑتاہے ۔لیلیٰ خالد بھی زرینہ مری کی طرح جذبات کو انگیخت کر نے کے لیے ایجاد کی گئی تھی تفشیش وتحقیق کاحاصل یہ ہے کہ عورت کاعقل ا س کے گھٹنوں میں ہے وہ آزادی کی جنگ نہیں لڑسکتی ۔سجی خوربالاچ کو عیاش چی گویراسے تشبیہ دینا بالکل درست ہے ۔موخر الذکر مہم جوئی کا شوقین تھااول الذکر سجی کھانے کے شوق میں سر لٹھ کے پہاڑوں میں پہنچے اور اس شوق میں مجاہد فوج کے حملوں کا نشانہ بنے اور جان سے گزر گئے اب اسی پیراگراف میں بھنگ پینے والے ڈاکٹر اللہ نذر کا ذکر اس طرح شامل کر لیں کہ ڈاکٹر اللہ نذرپہاڑوں میں بھنگ کے تلاش میں مارا مارا پھر رہے ہیں ۔ان باتوں سے صبا خوشی سے پھولے سمائیں یا غصے سے لال پیلا ہویہ اعلیٰ حضرت کے ”اپنے نظریات ہیں “ ۔

غصے کے تھوک دو،بی ایس او کے جوشیلے جوانوبوڑھے صبا کوسمجھاﺅ ۔اس بیچارے کابائی پاس ہواہے۔شوگر کے مریض بھی ہیں غصہ کرنا ان کی صحت کے لیے ہرگز اچھانہیں ۔ان کو سید ہاشمی کے مجمسے کے سامنے مودب بٹھاﺅ۔ملاکلمتی کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ ان کو لائبریری کے انتظامی معاملات میںمصروف رکھے ۔یہ ملیر کے ماحول کو بھی خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔پی پی پی کے جیالوںکو بلوچستان کی محبت کی تعویز پلاکراُن کا جیالا پن دور کیے جارہے ہیں ۔

آزادی اظہار کا تقاضاہے کہ بی این ایف والے اپنے نظریات میں خوش اورسر مچار اپنے کوہ نوردی پر مطمئن ہوں۔میں تو سچ کا علمبردار ہوں سچ ہی لکھوں گا ۔میں وہ واحد انسا ن ہوجس میں” دجلہ کو دجلہ اور قطرہ کوقطرہ دیکھنے کی صفت ہے ۔“میں اپنے مافوق البشر صلاحیت کی بدولت یہ بھی جانتاہوں کہ خیر بخش مری بلوچوں کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں ۔براھندگ امریکی ایجنٹ ہیں ۔کرد شرپسند ہیں جنہوں نے مجاہد صدام حسین کو اُکسایا کہ وہ صلاح الدین ایوبی کی نسل پر کیمیکل گیس استعمال کر کے اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرئے ۔انہوں نے ایرانی ملاﺅں کو ترغیب دی کہ وہ کردوںکوجانور کی طرح پہاڑوں کی طرف ہانک دیں جہاں وہ بلندی پر ہاتھ لہرالہرا کرامریکہ بزرگ کو دعوت دیں جوترکی میں اتاترک بنے بیٹھے ہیں کہ ”اے دنیاکے باپ آہمارے بھی ”اتا “بن جا۔“کردستان کے چھپے چھپے پر گمنام قبروں میں مدفن لاکھوں مقتولوں کے چیخ وپکار پہ نہ جاﺅ یہ سب امریکن ایجنٹ تھے جنہوںنے خود کو قتل کروایا تاکہ امریکہ کو عراق پر حملہ کرنے کا موقع مل سکے ۔یہی تھے جنہوںنے امریکہ کے کہنے پر اسامہ بن لادن سے ورلڈ ٹاور کو اُڑانے کی اپیل کی ۔جناب امان اللہ کے جدید تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ صلاح الدین ایوبی بھی امریکہ کے ایجنٹ تھے جنہوں نے ”یروشلم “پر حملہ کر کے یہودی اور عیسائیوں کا قتل عام کیا ۔نہ صلاح الدین ایوبی یہ حملہ کرتے نہ مشرق وسطیٰ کاامن تباہ ہوتا نہ مشرق وسطیٰ کا امن تباہ ہوتا نہ امریکہ بہادر کو مداخلت کی جرا ¿ت ہوتی نہ ازرائیل کاقیام ہوتا ۔کردو ں کے ساتھ صدام نے جوسلوک کیا تھا اس سے امریکہ کی غلامی بری ہے ۔

نوری نصیر خان بھی ایک زبردست قسم کے دہشت گرد تھے جنہوںنے خالصہ بادشاہ رنجیت سنگھ کی ریاست میں دراندازی کی یہ خطرناک دہشت گرد بہروپ بدلنے میں بڑاماہر تھا ۔سادہ لوح سکھ ا س کے لمبے بالوں دیکھ کر میدان جنگ میں اسے اپنا سکھ ساتھی سمجھتے تھے اور یہ موقع پاکر ان کی گردنیں اُڑاتا تھا۔اس وقت اگر پاکستان قائم ہوتا تویقیناًانہیں گرفتار کرکے گوانتاناموبے بجھوادیاجاتاہے ۔اس دہشت گرد نے اپنے زمانے میں کافی تباہیاں مچائی ہیں ۔خالصتان کو پنجاب بنانے میں بھی اسی کا ہاتھ تھا ۔اب رنجیت سنگھ کے اولادوںکو غصہ توآئے گا انہوںنے گرونانک اور رنجیت سنگھ کی بجائے محمود غزنوی اور شیر شاہ سوری جیسے غیر ملکی بلکہ ان کے قومی دشمنوں کو ان کا ہیرو بنادیا ۔بعد میں ایک بالے میاں پیدا ہوئے تو وہ بھی بلوچوں کے مداح نکلے اور بھگت سنگھ کو بلوچ سر مچاروں نے اپنا آدرش بنالیا ہے ۔رنجیت سنگھ کے اولادوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کی درستگی کر لیں اور نوری نصیر خان کے دہشت گردانہ کارروائیوں کابدلہ اس کی نسل سے لیں۔ہم بلوچ روشن خیال لکھاریوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ گچکی صاحب کی پیروی میں اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ خالصتان کی ریاست کے خلاف نوری نصیر خان نے افغانیوں سے مل کر سازش کی تھی جس کی سزا بلوچ اورپشتون قوم کو ملنا چاہئے ۔

پنجابی طالبان نوری نصیر خان کی طرح ظالم نہیں ۔انہوں نے جاں بخشی کے چند آسان سی شرائط بھی رکھے ہیں ۔”پنجابی بن جاﺅ “ یہ قبول نہیں ”تو غلام بن جاﺅ “یہ بھی قبول نہیں ”توبے غیرتوں کی طرح سر جھکاکر پنجابائزیشن کے آگے رکاوٹ نہ بنو “ یہ سب عین اسلامی اصول کے مطابق ہے ”اسلام قبول کرلو ، خراج دو یاجنگ کے لیے تیار ہوجاﺅ۔

کشتی کی کہانی ابھی باقی ہے غلام محمد نے بھی کشتی کی بات کی تھی (ان کواپنا آدرش بنانے سے پہلے بلوچ نوجوان کواچھی طرح سوچ لینا چاہئے کہ یہ معمولی درزی کا بیٹاتھا )کہ ”پارٹی ایک کشتی ہے جس کے ڈوبنے کے ذمہ دار اس میں سوار افراد ہوں گے ۔“غلام محمد کی بات بھی کہانی میں ضرور ی ہے ۔ گچکی صاحب کے مضمون سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ یہ ایم آئی اور آئی ایس آئی کے مشترکہ ایجنٹ تھے سند کے طور پر انٹر نیٹ پر شائع ہونے والے بی ایس او ( محی الدین ) کاخط بعنوان
(Hidden Face of Ghulam Mohammad)
پڑھ لیں ۔بلوچستان دراصل مجاہد فوجیوں کی تربیت گاہ ہے تاکہ صہیونی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھ سکیں ۔سوچنے کی بات ہے دبلے پتلے غلام محمد ببانگ دہل آزادی کی بات کیسے کرتاتھا ۔سردار کا یہ مشورہ معقول ہے ”براہ راست ایم آئی او ر آئی ایس آئی جوائن کرلو لیکن بی این ایم نہیں ۔“ایم آئی اور آئی ایس آئی والے دراصل بھارت کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے ایجنٹوں کو حریت پسند ظاہر کر کے اس سے ہتھیار لیتے ہیں پھر یہ ہتھیار بلوچستان لاکر ”لپکنا ، جھپٹنا ، جھپٹ کر پلٹنالہوگرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ “کاکھیل کھیلا جاسکے ۔یورپین ممالک میں سول سوسائٹی اس طرح کے جنگی کھیل خاص قسم کے کھلونا ہتھیاروں سے کھیلتے ہیں جن میں بارود کی جگہ رنگ بھرا جاتاہے ۔لیکن ایسے کھیل کا کیا فائدہ جس میں حقیقت کا عنصر نہ ہو۔

ازرائیل ، امریکہ اور بھارت نے جب دیکھاکہ پاکستان اس کھیل میں مہارت حاصل کرتا جارہاہے تو اس نے بلیک واٹر کے ذریعے پاکستانی خفیہ ایجنسیو ں کے اہم افسران غلام محمد ، لالہ منیر اور شیر محمد کو قتل کروایا اور اسلام آباد بھاگ کر وہاں مرگلہ کے پہاڑوں میں چھپ گئے ۔ایف سی جنرل میجر سلیم نواز، جنرل پاشا اور جنرل کیانی اپنے ان افسران کے موت کے ذمہ داران کو سزاءدینے کے لیے خصوصی طورپر تحقیقات کروارہے ہیں ۔چیف جسٹس آف پاکستان بھی سوموٹو ایکشن لینے والے تھے لیکن بلوچستان ہائی کورٹ کے جج نے اپنی ٹانگ اڑاکر معاملات بگاڑ دیئے چیف جسٹس پاکستان نے اس گستاخ کو برطرف کرکے اچھی سزاءدی ہے ۔یہ سب شوائد اس بات کی دلیل ہیں کہ غلام محمد ، شیر محمداور لالہ منیر کے قتل میں ملوث غیر مرئی مخلوق امریکہ ، ازرائیل اور بھارت کی مشترکہ تیارکرد ہ خلائی شٹل میں سوار ہوکر آئے تھے یہ بات تو ہم نے امان اللہ صاحب سے مستعار لے کر واضح کردی کہ بلوچستا ن میں ہتھیار ، بم ، راکٹ لانچر رحمان ملک سپلائی کرتے ہیں ۔اب یہ بات کہ ان کاقتل بلوچستان میں اگر آزادی کے نعروں کو روکنے کی کوشش تھی تو اس میں فائدہ کس کا ہوا ؟ اس کے لیے گچکی صاحب کے مضمون کا مطالعہ ضروری ہے ۔

بلوچ بے وقوف اور لڑاکو قوم ہے اب بھلایہ لڑنے کی بات ہے کہ تم نے نیپ بنایا سیاست کی توتم کو حیدرآباد جیل میں ڈال دیاگیا۔تم نے پانی مانگا تمہیں قتل کردیا گیا۔تم نے رائلٹی مانگے تو تمہارے قلعے پر راکٹ برسائے گئے ۔ حمید بلوچ نے کہاکہ بلوچ جوانوں کوکرایے کے قاتل نہ بناﺅتوپھانسی چڑھادیئے گئے۔عبدالکریم اور نوروز کو قرآن کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے اُتار کر تختہ دار پر چڑھادیا اور تم اتنی سی بات پر ناراض ہوکر آزادی مانگ رہے ہو۔پنجابی طالبان امریکن ڈالر کی روٹی کھاکرطاقتور ہوگئے ہیں بلوچ اب کبھی آزاد نہیں ہوسکتا”اب کشتی پانی میں اُتر گئی “اس میں ناراضگی کی بات نہیں جناب امان اللہ کا مضمون پڑ ھ لیں انہوںنے اتنی سی بات کہ ”آزادی کی بات کرنے والے پاکستانی خفیہ اداروں کی ایماءپرآزادی کے نعرے لگوارہے ہیں۔بلوچ قطعاًآزاد نہیں ہوسکتے یہ کوششیں ان کوامریکہ کا غلام بنانے کے لیے ہیں ۔بلوچستان کی مقبوضہ حیثیت کی بات غلط ہے بلوچوںنے بخوشی پاکستان کی غلامی قبول کی تھی بلوچ کی آزادی اور خوشحالی بھیپاکستانی بندوبست کے اندر ہی رہ کرممکن ہے ۔“ اتنی سی بات کو انہوںنے پیچیدہ بناکر طویل شاہکار مضمون لکھ ڈالادرمیان میں چند حمایتی جملے لکھے سر مچار بھی خوش سر کار بھی خوش ۔تومیںنے بھی کشتی کی کہانی چار صفحات پر پھیلا دی”کشتی جب پانی میں اُتر گیادو ٹانگوں والے آدم زاد سمیت بھانت بھانت کے چارٹانگوں والے جانور ، چرند پرند سب اس میں سوار ہونے لگے ۔بزرگ کی بات شیطان کے توقع کے برعکس سچ ثابت ہورہی تھی ۔زمین سے فوارے کی طرح پانی اُبل رہاتھا ۔بزرگ کے پیروکار قطار در قطار کشتی میں چڑھ رہے تھے ان میں اُن لوگوں کی بھی کثیرتعدادشامل تھی جو بزرگ کا مذاق اُڑایا کرتے تھے ۔کشتی میں ”زیراپ “ڈالنے کا انقلابی مشورہ دینے کے باوجود شیطان کو کشتی میں چڑھنے کی اجازت نہیں تھی ۔شیطان نے شیطانی دماغ استعمال کیا اسے کشتی ڈبونا تھا جس کے لیے اس کاکشتی میں چڑھنا ضروری تھا اس نے کشتی میں سوار ہونے والے بزرگ کے ایک پیروکار گدھے کی دم پکڑ لی بزرگ نے شروع میں بہت کوشش کی کہ شیطان اس کی دم چھوڑ دے لیکن ان کی سب کوششیں بیکار گئیں اور شیطان گدھے کی دم پکڑ کر کشتی میں چڑھ گیا۔ساحل پہ ڈاکٹر عبدالمالک ریگی کھڑے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے ۔ اس نے اپنا اسنیپر گن نکالا جس پر جلی حروف میں ”جند اللہکنندہ“ تھا جسے ایرانی ملا ”ساخت امریکہ “ پڑھتے ہیں اور اعوذبااللہ من شیطان الرجیم پڑھ کر نشانہ باندھا اور فائر کیا گولی شیطان کی آنکھ میں لگی اور وہ کانا ہوگیا۔کانا ہونے کے باوجود وہ ٹائی ٹانک کی ہیروئن کیٹ ونسلٹ اور ہیرﺅ لیونارڈوکی طرح جہازکے گور پر کھڑا ہوکر دونوں ہاتھ ہوامیں لہراتے ہوئے کہنے لگا”رحمان !مجھے بلوچوں کی آزادی کے سواءکچھ نہیں چاہئے ۔پاکستان کے علاوہ بلوچوں کو کہاں آزادی مل سکتی ہے دنیا تو شیطان بزرک کے قبضے میں ہے تم مجھے ڈیرہ خان گڑھ ، مزارستان سے لے کر جیمڑی تک آزادی دو بندر عباس سے لے کر گوتر تک کی بلوچوں کی باقی ماندہ آزادی میں احمدی نژاد سے مانگ لوں گا۔لعنت ہے اس مردود پر اب کانا بن کر اندھوں کا راجا بننے کی کوشش کررہاہے ۔خیر بخش مری بوڑھے ہیں اندھے نہیں ۔“ ڈاکٹر عبدالمالک ریگی نے شیطان کے زندہ بچ جانے پر غصے سے دانت پیستے ہوئے کہااور کہانی تمت بالخیر ہوگئی ۔

قلندر نے لاحول پڑھ کرامان اللہ گچکی کے مضامین والے اخبارات کے بنڈل کو آگ میں جھونک دیا۔ایک دھواں سااٹھا ۔دھویں کے مرغولے میں ”گچکی صاحب “کی شبیہ نظرآئی وہ شاید احتجاج کرنا چاہتے تھے لیکن باد کیچ کے ایک جھونکے نے اسے ہوامیں اُڑادیا۔

٭٭٭٭٭٭

15-09-2009