بلوچ گلزمین ءِ جارچین

 

 وش آتکے

|

 Download Balochi Font and view Balochi text uniquely 

| گوانک ٹیوب | لبزانک | نبشتانک | سرتاک

|

 

 

Wednesday, May 02, 2012

لیاری کے عوام اور ان کا قتل عام
زباد سنگُر بلوچ


کراچی کی ماں کہلانے والی لیاری آج جس کی آبادی میں مختلف اقوام کے لوگ شامل ہیں لیکن کسی دن یہ خالصاًبلوچ علاقہ تھا لیکن چونکہ بلوچ قوم مزاجاً اور رواےتاً متعصب نہیں ہے اس لئے کسی بھی بلوچ علاقے میں دوسری قوموں کے لوگ بڑی آسانی کے ساتھ آ بستے ہیں ۔اس لئے آج ہم دےکھتے ہیں کہ کراچی میں پاکستان بننے کے بعد آنے والے بھارتی مہاجروں کی اکثرےتی علاقے میں دوسری قوموں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔اسی طرح 1980کی دھائی سے آنے والے افغان مہاجرےن کی آبادی والے علاقے میں بھی کوئی غےر افغان قوم نہیں بس سکتا ہے مگر کراچی کے بلوچ علاقوں میں پاکستانی تو کیا بنگالی عوام بھی بڑی اکثرےت کے ساتھ نہ صرف موجود ہیں بلکہ اُن کی معاشی حالت بھی بلوچوں کی بہ نسبت زےادہ مستحکم ہے۔اسی طرح یہ بات بھی بلوچ قومی مزاج اور قومی رواےات کی غےر متعصبانہ رویے کی غماز ہے کہ لیاری کے بلوچ عوام نے سےاسی طور پر خود کو کسی بلوچ سےاسی پارٹی کے بجائے اےک مفاد پرست جاگےردار وفاقی سےاسی پارٹی کے ساتھ گزشتہ پینتےس سالوں سے نہ صرف وابستہ رکھا ہے بلکہ پوری پاکستان کے لوگوں سے زےادہ بلکہ خود اس قوم سے زےادہ جس سے اس پارٹی کے رہنماﺅں کا تعلق ہے بلوچ قوم نے اس پارٹی کے لئے جانی،مالی قربانی دی ہے۔لیکن آج جب ہم لیاری کے ان قربانےوں کا بدلہ گولیوں کی صورت میں دےکھتے ہیں تو ہمیں کوئی پرےشانی اس لئے نہیں ہے کہ ہم سمجھتے تھے کہ کسی نہ کسی وقت یہ دن آنا ہی تھا ۔اس لئے کہ لیاری کے عوام استحصال زدہ ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی اےک استحصالی پارٹی ہے اور تارےخ نے کبھی بھی استحصال کنندہ اور استحصال شدہ طبقوں کو باہم ہوتے نہیں دےکھا ہے۔ تارےخ کبھی بھی ظالم و مظلوم اور حاکم و محکوم کو باہم اکھٹے نہ رکھ سکی ہے اس لئے لیاری کے مزدور عوام اور پیپلز پارٹی کے جاگےردار اور مفاد پرست ٹولے کی باہم علحدگی عےن فطری امر اور قانون قدرت کے عےن مطابق ہے۔
آج لیاری کے عوام اس جاگےر دارانہ مزاج کے حامل پیپلز پارٹی اور ابھرتا ہوا سرمایہ دارانہ مزاج کے حامل پارٹی ایم کیو اےم کے درمیان پِس رہی ہے۔اور اُس وقت تک لیاری کے عوام ان کے باہمی مفادات کی بھےنٹ چڑھتے رہیں گے جب تک لیاری کے عوام خود کو اےک متحد و منظم قوت کے طور پر پیش نہیں کرتے ہیں۔جو نہ صرف آج کے حالات کا تقاضا ہے بلکہ لیاری کے عوام کی زےست کے لئے بھی انتہائی ضروری ہے۔اسی لئے بلوچ رہنما واجہ حےر بےار مری نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ”۔۔۔لیاری کے بلوچ تعلیمی اور شعوری طور پر کسی سے کم نہیں ہیں وہ خود اےک طاقت ہیںانہیں پیپلز پارٹی ےا کسی دوسری پارٹی کی طرف دےکھنے کی ضرورت نہیں ہے انہیں اپنی اس ”بلوچ اتحاد و ےکجہتی “کو بلوچ مادرِ وطن بلوچستان کی خاطر استعمال میں لانا چاہیے وہ امےد کرتے ہیں کہ لیاری کے بلوچ مذےد نہ تو پیپلز پارٹی اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) ےا کوئی اور پاکستانی وفاق کے حامل پارٹی کے لئے استعمال ہوں گے ۔۔۔۔۔“
پاکستان پیپلز پارٹی کی مفاداتی سےاست نے لیاری کے بلوچ عوام کو کچھ دےا تو نہیں ہے بلکہ ان سے اُن کی قومی و سےاسی شناخت تک چھےن لی ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ آج جب کوئی بھی شخص ےا کوئی بھی گروہ کراچی میں موجود کسی ہندوستانی مہاجر پر ہاتھ ڈالنا چاہے تو فوراً اس کی نظرےں مہاجروں کی پارٹی اےم کیو اےم پر جا ٹکتی ہیں ۔اسی طرح جب کوئی شخص ےا گروہ کسی پختون شخص ےا گروہ پر حملہ کرنا چاہے تو اس کی نظرےں بھی اےک مضبوط و منظم سےاسی پارٹی اے اےن پی پر جا ٹھہرتی ہیں اور اسی طرح جب کوئی شخص ےا پارٹی کسی سندھی پر ہاتھ صاف کرنا چاہے تب بھی وہ پیپلز پارٹی کو دےکھ کر اپنا ہاتھ کھےنچ لیتا ہے مگر جب کسی شخص ےا کسی گروہ کو کراچی کے کسی بلوچ کی جان و مال پر ہاتھ ڈالنا ہو تو وہ آسانی کے ساتھ اپنی خواہش کو پوری کر لیتا ہے اس لئے کہ کراچی کے بلوچ عوام نے پیپلز پارٹی جےسے منافق سےاسی پارٹی میں شامل ہوکر خود کو ےکسر بے ےار و مدد گار کرلیاہے۔
آج پانچوان دن ہے کہ لیاری کے عوام اپنی ہی منافق سےاسی ٹولے کے منافقانہ سےاست کی بھےنٹ چڑھی ہوئی ہیں ۔آج چودھری اسلم جےسے انتہائی کرپٹ،بدعنوان اور بلوچ دشمن پولیس آفےسر بلوچ علاقوں کے گلی کوچوں میں اپنے ہزاروں پولیس اور اےف سی کے اہلکاروں کے ساتھ آستےن چڑھائے پنجابی فلمی ہیروﺅں کی طرح دندناتے دن رات پھر رہے ہیں۔اس کے انداز رفتار و گفتار ہی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بلوچ سے کس قدر نفرت کرتا ہے۔دن رات لیاری کے بلوچوں کے خلاف آتشےن ہتھےار چلانےوالے رےاستی غنڈے اور سےاسی بدمعاش باہم مل کر لیاری کے بلوچوں کی زندگی کو جہنم بنائے ہوئے ہیں۔لیکن اےسے میں اےک نوےد مسرت یہ سننے میں آئی ہے کہ لیاری کے بلوچوں کی آنکھےں کھل گئےں ہیں۔اُن کو اس بات کا پتہ چل گےا ہے کہ بقول فارسی زبان کے کہ” از ما ہست کہ برما ہست“ اور اس سے بڑھ کر یہ بات کہ لیاری کے بلوچوں نے اجتماعی طور پر پیپلز پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کیاہے۔ےقےن مانئے جب پہلی بار واجہ عزےر بلوچ نے اےک بلوچی نجی ٹی وی چےنل پر پاکستان پیپلز پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کیا تو مجھے اےسے لگا جےسے میں کوئی خواب دےکھ رہا ہوں اور پھر اےک بلوچ ماں نے واجہ عزےر کی بات کی تائےد میں جذباتی انداز میں لیاری کے عوام کا فےصلہ سناےا تو مجھے ےقےن ہوا کہ اب بلوچ نے پیپلز پارٹی کی مفاد پرستانہ سےاست کی سحر سے خود کو آزاد کرلیا ہے۔اب بلوچ کو دوبارہ بھٹو کے نام پر کوئی بھٹوزرداری خواہ بلاول ہو کہ بختاور،غنوایٰ ہو کہ خود زرداری ےا اس کے کٹی ہوئی زبان سے نکلی ہوئی معافی تلافی ےا چند ٹکے کے عوض منانے کی کوشش کامےاب نہیں ہوگی۔
اب جب کہ لیاری کے عوام نے خود کو پیپلز پارٹی کے سحر سے آزاد کیا ہے بلکہ راقم اس حد تک کہنے کو جائز سمجھتا ہے کہ لیاری کے بلوچوں نے خود کو بے بسی، بے کسی اور بے وسی کی قےد سے آزاد کیا ہے۔پہلے پہل دوسری پارٹی خواہ سندھ کے قوم پرست ہوتےں ےا بلوچستان کے قوم پرست پارٹےاں ہوتےں وہ ظلم و بربرےت کو دےکھ کر بھی اس لئے خاموش ہوتےں کہ ان کی اپنی پارٹی ہے یہ لوگ پھر جئے بھٹو ےا دل ئَ تےر بجن کا نعرہ لگا کر اپنی قتل و غارت گری کا سامان پیدا کرےں گے۔مگر اب اےسا نہیں ہوگا۔اب سندھ اور بلوچستان کے قوم پرست بلکہ انسانی حقوق کے حامل تنظےمیں بھی لیاری کے بلوچوں کے لئے آواز اٹھائےں گے۔اور پھر اس بات کو سُن کر ان کو ےقےن آگےا ہوگا کہ واجہ عزےر بلوچ نے واشگاف اور گرجدار آواز میں صاف طور پر اعلان کیا کہ وہ بلوچ ہیں انہوں نے اےک بار جو تھوک زمین پر دے ماری ہے اسے واپس نہیں چھاٹ سکتے۔۔۔“
اب لیاری کے عوام کو کیا کرنا چاہیے۔۔۔؟ یہ اےک اہم سوال ہے جو آج لیاری کے بلوچوں اور اُن کے بہی خواہوں کے سامنے ہے۔آج ہر کوئی پارٹی لیاری کے عوام کی سادگی اور مخلصی کو کیش کرنا چاہے گی،مگر اب لیاری کے بلوچوں کو بقول بلوچی” مار وارتگےن ئَ چہ رےز ئَ تُرس اےت“سانپ کے کاٹے کو رسی سے بھی ڈر لگتی ہے کے مطابق بہت احتےاط کرنی چاہیے۔ اےک اور بات میں واضح کردوں کہ لیاری ذہانت کے لحاظ سے اےک سرسبز علاقہ ہے یہ وہی لیاری ہے جو سےاسی شعور کے لحاظ سے بلوچستان کی رہنمائی کرتی رہی ہے۔اس میں بہت سارے مخلص اور ذہین و فطےن لوگ موجود ہیں ۔پہلے پہل اُن کو پیپلز پارٹی کی سحر نے اپنی ذہانت اور فطانت کو آزمانے کا موقع نہیں دےا تھااور یہ لوگ بڑی خاموشی کے ساتھ اسی انتظار میں تھے کہ کوئی اےسا معجزہ ہو جس سے لیاری کے عوام کو اس مفاد پرست ٹولے کی سحر سے نکلنا پڑے۔آج اُن کو خدائے بزرگ و برتر نے یہ موقع دے دےا ہے۔مےرا تمام لیاری کے بلکہ تمام کراچی کے بلوچوں سے التماس ہے ،دست بستہ عرض ہے کہ وہ باہم متحد و منظم ہوکر اپنے ہی اندر مخلص اور ذہین لوگوں کو ڈھونڈ لیں۔جس طرح واجہ عزےر بلوچ نے اعلان کیا کہ وہ اپنی جان دےں گے مگر لیاری کے بلوچوں کو ظلم اور بربرےت سے نجات دلائےں گے اسی طرح اب جبکہ لیاری کے بلوچوں نے بھی اُن پر اعتماد کیا ہے تو یہ ذمہ داری اُن پر عائد ہوتی ہے کہ وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھائے۔
مےرا تمام کراچی کے بلوچوں سے استدعا ہے کہ وہ کسی بھی دوسری قومی ےا وفاقی سےاسی پارٹی میں نہ جائےں۔بلکہ کراچی کے بلوچ اور صرف بلوچ علاقوں کے اندر سے تعلیم ےافتہ ،مخلص اور نوجوان قےادت پیدا کرےں،اپنی اےک پارٹی بنانے کا اعلان کرےں اور انتخابات میں تمام تر کراچی کے بلوچ عوام اسی اےک ہی پارٹی کو جتوائےں ۔گو کہ مجھے اس بات کا ادراک بھی ہے کہ آج کراچی کی سےاسی حلقہ بندی اس طرح کردی گئی ہے کہ کراچی کے بلوچوں کو اُن کی آبادی کے مطابق رکنےت نہیں ملے گی مگر حوصلہ رکھنا چاہیے۔اس لئے کہ وہ لوگ جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مفادات اٹھاتے رہے ہیں ےا وہ لوگ جو دوسری مختلف پارٹےوں میں اپنی سےاسی دکانداری چمکانے کے متمنی ہیں وہ سب کے سب آج کے کراچی کے عوامی فےصلے کو بدلنے ےا لیاری کے بلوچوں کو کسی نئی پارٹی میں شامل کرنے کے لئے اپنی اےڑھی چوٹی کا زور لگائےں گے۔معافےاں مانگنا اور ظلم و بربرےت کرنا بلوچوں کے ساتھ ان سےاسی شاطروں کی تارےخ کا حصہ ہے وہ خود کو عاقل و بالغ اور بلوچوں کو بے وقوف سمجھتے ہیں مگر اب وقت آگےا ہے کہ تمام بھائی چارگی ،تمام جذباتی وابستگی،تمام رشتہ دارےوں کو تھاگتے ہوئے صرف اور صرف کراچی کے بلوچوں کی اجتماعی زندگی کی سوچ اور فکر کو سامنے رکھ کر فےصلہ کرنا ہوگا۔اور اس فےصلے میں واجہ عزےر بلوچ کو نہاےت ہوشےاری،ذہانت اور بلاغت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔میں اےک بار پھر عرض کرتا چلوں کہ سندھ اور بلوچستان کے کسی بھی سےاسی پارٹی ےا وفاقی ےا مذہبی پارٹی میں قطعاً جانے کی ضرورت نہیں ہے یہ اس طرح کی غلطی ہوگی جوپینتےس سال پہلے ہمارے سادہ دل اور سادہ لوح بزرگوں نے نعرہ بازوں کی نعروں کے دھوکے میں آکر کیا تھا اس کی سزا آج پوری لیاری کے بلوچ قوم بھگت رہی ہے اس طرح کا کوئی غےر دانشمندانہ فےصلہ اےک بار پھر بلوچوں کو آسمان سے گرا کر کھجور کے درخت کی ٹہنیوں میں جا پھنسا دےں گی کیوں کہ اےک تو پاکستانی سےاست ماسوائے منافقت اور جھوٹ کے اور کچھ نہیں ہے اور پھر پاکستان کی وفاقی پارٹےاں وہ خواہ پیپلز پارٹی ہو،مسلم لیگ (ن) اور دوسرے لیگی پارٹےاں ہوں تحرےک انصاف کی سونامی(جو صرف اور صرف تباہی ہی ہے) ہو،جماعت اسلامی ےا جمعےت علمائے اسلام ،اےم کیو اےم ہو کہ کوئی اور پارٹی وہ سب کے سب پاکستانی خفےہ اداروں کی اےماءپر چلتی ہیں جن کا منشاءاور مرضی بلوچ کو اس کی تمام تر اہمیت کے حامل علاقوں سے نکالنا ہے اور لیاری کا علاقہ پاکستان کے کسی بھی دوسرے غےر بلوچ خطے سے زےادہ قےمتی اور اہم ہے ۔ اور پھر جب آپ نے اتحاد اور انصرام کا مظاہرہ کیا تو یہ پارٹےاں خودبخود آپ کی ہوں گی۔کسی کو خوش ےا کسی کو ناراض کرنے کی چندان ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے اخباری بےانات سے مغلوب ہونے کی ضرورت ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ جان لیں کہ حکمرانوں کی سازشوں کے نشانے پر آپ ہیں اےسے میں کسی اےک پارٹی میں جانا خود کو دوسری تمام پارٹےوں کی ہمدردےوں سے محروم کردےنے کے مترادف ہوگی جو کسی بھی لحاظ سے لیاری کے بلوچ کے مفاد میں نہیں ہے۔(اس قاتلِ عالم سے نہ رکھ امن کی امید ۔۔جلّاد کے آنکھوں میں مروت نہیں ہوتی)
کبھی کبھی انسان کو کسی بات پر بڑا دکھ پہنچتا ہے۔ سننے میں آےا ہے کہ پاکستان میں میڈےا آزاد ہے اور پھر دےکھنے میں یہ بھی آےا ہے کہ بعض ٹی وی چےنلز اس کرپٹ اور مجرم حکومت سے بےزار ہےں اور دن رات اس کے خلاف آواز بلند کر رہی ہےں ۔مزاحیہ پروگراموں میں ان
مسخروں کی تمسخر اڑائی جا رہی ہے ۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہی ٹی وی چےنل لیاری کے بلوچوں کو لمحہ بہ لمحہ غندہ،دھشت گرد ،گنگ وار،بھتہ مافےا اور دےگرمافےا اور نجانے کیا کچھ دکھا رہا ہے اےسے لگتا ہے کہ یہ ٹی وی چےنلز اسلم چودھری اور نبےل گبول کے ترجمان بن گئے ہیں اےک طرف حکومتی غنڈہ گردی اور دوسری طرف میڈےا کی طرف سے حکومتی غنڈوں کی ترجمانی نے لیاری کے عوام کو ہر حماےت سے محروم کر رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھاہے اور یہ ”ظالموں کا ساتھی بن جانا “ظالم ہونے کے مترادف ہے۔انہوں نے صحافت کو جانب داری کے شکنجے میں کھس کر نےم مردہ بنا دےا ہے اور یہ سب بلوچ دشمنی کی بنےاد پر ہے ےعنی یہ سب کچھ جویہ ٹی وی والے صحافت کے نام سے کر رہے ہیں وہ حبِ علی نہیں ہے بلکہ بغض معاویہ ہے۔اُن کو اس بات کا شائد ےقےن نہیں ہے کہ اُن کے رپورٹروں کی آواز توبہت دور دور کر جا رہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اُن کی دکھائی جانے والی تصاوےر اور فوٹےج بھی اسی حد تک پہنچ رہی ہے جو خود اُن کی قلعی کھول رہی ہے ۔اندازہ کرےں کہ جب پورے کراچی کے بلوچ علاقوں سے جلوس کی شکل میںہزاروں کی تعداد میں مختلف سڑکوں اور شاہراہوں سے لوگ اپنا احتجاج رےکاڑد کرانے لیاری کے عوام کی حق میں نکل چکے تھے تو ان ”باخبر “ اور ”حق کا ساتھ دےنے والے“ ٹی وی چےنلوں کو سانپ سونگھ گےا تھا وہ پولیس اور اےف سی کی ترجمانی میں مصروف تھے۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صحافت نہیں ہے مفافقت ہے اور منافقت کو صحافت کے لبادے میں اوڑھنے والے منافق کہلاائےں گے صحافی نہیں۔