بلوچ گلزمین ءِ جارچین

 

 وش آتکے

|

 Download Balochi Font and view Balochi text uniquely 

| گوانک ٹیوب | لبزانک | نبشتانک | سرتاک

|

Saturday, May 7
بلوچستان کی کل مالیت
Miroo Mayar
 
اگر میں آپ کو  یہ بتاؤں کہ بلوچستان کی کل  مالیت کا اندازہ  ہم بلوچوں سے زیادہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے لوگوں کو ہے اور ان سے زیادہ اندازہ مغربی ممالک کو ہے  لیکن  سب سے زیادہ  علم امریکہ کو  ہے تو آپ مجھ پر سوالات کا بارش برسانا شروع کر دیں گے۔
 اور آپ یقیناً  یہ کہہ کر مجھ پر تنقید بھی کریں گے کہ  تمہیں کیسے پتہ ہے کہ ہمیں بلوچستان کی کل مالیت کا اندازہ نہیں ہے۔  اور آپ مجھ  سے بہ بھی پوچھیں گے کہ تمہیں یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ آج بلوچستان کی مالیت اور قیمت کے تعین کے لیے یہ مضمون  تحریر کرنے پر اتر آئے ہو۔
خدا سائیں الہٰی بخش سانگی  کو صحت دے  یہی سوال  انہوں نے انیس سو  بیانوے کو مجھ سے کراچی  میں اپنے گھر پہ پہلی ملاقات کے دوران کیا تھا ۔  اُس  زمانے میں  کمپیوٹر سائنس میں ڈپلومہ کرنے کے بعد آگرہ تاج کراچی کے  اسداللہ سانگی  اور میں نئے نئے دوست  بنے تھے ۔ ہماری دوستی کمپیوٹر سائنس میں  ہم دونوں کی دلچسپی کی بنیاد پر قائم ہوئی۔ اُس زمانے میں کراچی جیسے بڑے شہر میں  صدر، طارق روڑ اور شاہ فیصل کالونی  ہی تین ایسے جگہ تھے کہ جہاں قریب میں  کمپوٹر انسٹیٹیوٹ قائم ہونے کی وجہ سے کمپیوٹر سے منسلک ساز و سامان کی دکانیں بھی تھیں۔ خود میری زیادہ تر جان پہچان شاہ فیصل کالونی میں تھی جہاں  سے میں نے علم کمپیوٹر حاصل کیا تھا ۔ لیکن اسد کی کراچی میں  ہر جگہ اچھی خاصی جان پہچان  اور واقفیت تھی۔ اور  مجھے جب کمپیوٹر سے منسلک کسی شے کی ضرورت پیش آتی تو  اسد سے رجوع کرتا تھا۔ کوئی چھ سات مہینوں کے اندر ہم جب پکے دوست بنے تو  ایک دن اسد مجھے اپنے گھر لے گیا۔  کسی سندھی خاندان کے گھر جانے کا یہ میر ا پہلا اتفاق تھا۔ گھر پہ ان کے ابو الہٰی بخش سانگی سے  ملاقات ہوئی ۔ میرے بارے میں اسد نے انہیں کبھی کچھ نہیں بتایا تھا  اور  نہ ہی انہوں نے اپنے ابو سے متعلق مجھے کچھ  بتایا تھا۔
وہ مجھ سے ملنے کے بعد بے انتہا خوش ہوئے ۔ لیکن جب انہوں نے مجھے یہ بتایا کہ تقسیم ہند سے پہلے  وہ برطانیہ میں  پڑھتے تھے اور تقسیم ہند کے بعد  جب واپس آئے تو انہوں نے  ایک  سیول سرویئر کی کی حیثیت سے  بلوچستان سے اپنے سرکاری نوکوری کا آغاز کیا تھا    اور وہ اپنے  عمر کا بیشتر حصہ بلوچستان  میں  گزار چکے ہیں  تو  مجھے   بھی لگا کہ   پہلی مرتبہ  ایک ایسا استاد ہاتھ آگیا   ہے جو ایک بلوچ کی حیثیت سے میرے  لیے ایک آئینے سے کم نہ تھا۔
یہی پر انہوں نے  مجھے کوئی چار گھنٹے طویل ایک لیکچر دیا۔ اور وہ بھی  ثبوتوں کے ساتھ۔ ۔ جب انہوں نے دوران گفتگو یہ محسوس کیا کہ مجھے بلوچستان کی اہمیت اور   افادیت کا زیادہ اندازہ نہیں ہے تو  انہوں نے بلوچستان کے مختلف علاقوں (گوادر، کیچ، مند، پشین ایران، ضلع لسبیلہ، خضدار آواران اور بعض دیگر  علاقوں سے  پتھروں ( جو ان کے گھر میں محفوظ  ہیں  )  کو میرے سامنے رکھ کر ایک ایک کرکے پوچھتا  رہا کہ یہ کیا ہے؟  میری ایسی  ذہانت نہیں تھی  اس لیے میں مے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے تو انہوں نے  ایک ایک کرکے سونے چاندی، فائرپروف پلاسٹک سلیکون اور  بہت سارے  قیمتی معدنیات کے نمونے دکھا ئے ۔ وہ اپنے گفتگو کے دوران ایک بات بار بار دھراتا رہا کہ بلوچ بہت بڑے بد بخت ہیں  جن کو اپنے  زمین اور وسائل کا  بالکل اندازہ نہیں ہے ۔
میں نے  رات کا کھانا بھی  انہی کے گھر میں کھایا  اور  بہت مشکل سے انہوں اس شرط  پر  ملیر جانے کی اجازت دی کہ آئندہ میں جب بھی کراچی آؤں گا تو  ان سے ملنے ضرور آؤں گا۔ ان کے گھر سے نکلتے وقت انہوں نے مجھے ہتو رام کا لکھا ایک کتاب تاریخ  بلوچستان  بھی تحفے میں دے دیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے  کتاب  کے  بعض حصوں کو حقائق کے برعکس اور ناکافی قرار دیا
 .سائیں الہٰی بخش سانگی  سے  ہونے والے اس ملاقات نے مجھ میں ایک تجسس پیدا کردیا
اس کے بعد میں بلوچستان میں جہاں بھی گیا  اپنے آپ سے ایک ہی سوال کرتا رہا  کہ کیا مجھے اس کی مالیت کا اندازہ ہے ؟ 
    پڑھنے سے پہلے The twin era of Pakistan: democracy and dictatorship دوہزار چار کو ڈاکٹر عبدالمالی کے کتاب  
میں کم سے کم بلوچستان کی جغرافیائی مالیت اور  زیر سمندر موجود وسائل کی مالیت کا اندازہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پوچھا تھا کہ بلوچ اس قرہ عرض کے عظیم ترین بد قسمت ہیں۔
بلوچستان میں زیر سمندر تیل و گیس کے تصدیق شدہ ذخائر کے علاوہ  اعلٰی نسل کے مچھلیوں کی آبادی دنیا کے دوسرے کسی بھی ملک کی نسبت زیادہ ہے ۔ بلوچستان کے سمندر میں پائے جانے والے  ایک ٹونا کی قیمت یورپی منڈی میں  ڈھائی لاکھ روپے سے زیادہ ہے ۔ اور بلوچستان کے سمندر سے سالانہ دس لاکھ سے زیادہ  ٹونا  شکار کرنے کی گنجائش ہے۔
یورپی منڈی کے تقاضوں کے مطابق اگر  بلوچستان کے سمندر سے سالانہ  پانچ لاکھ  ٹونا شکار کیے جائیں تو اس سے حاصل ہونے والے سرکاری  محصولات  بلوچستان میں مفت تعلیم ، صحت، صفائی کے سہولیات  اور انتظامی  امور کے اخراجات  کے لیے کافی ہیں ۔
اسی طرح بلوچستان کی سمندر میں اعلٰی کوالٹی کے جھینگے اور کیکا کی پیداوار کے لیے بہت ذرخیز ہے۔ اومارہ، کلمت، پسنی، چربندن، کپر ، سربندن اور جیونی میں  زیر سمندر  جھینگے اور کیکا کثرت سے پیدا ہوتی ہے عالمی مارکٹ کے حساب سے  یہ پیداوار سالانہ  کروڑوں ڈالر کی ہوتی  ہے۔
اس کے علاوہ  سالانہ ایک لاکھ  ٹن سے زیادہ مختلف قسم کی مچھلیاں بلوچستان کے سمندر سے پیدا ہوتی ہیں۔  اور  مقامی مارکٹ میں انکی اوسط قیمت فی کلو ایک سو روپے سے زیادہ ہے۔
لیکن بلوچستان کے سمندری وسائل سندھ اور غیرملکی ٹرالروں کے رحم و کرم پر ہیں ۔ بعض سیاسی رہنماؤں کے الزامات کے مطابق صوبائی حکومت کے اعلٰی ترین ذمہ داران سندھ کے لانچوں سے  بلوچستان کے سمندری حدود میں  تباہ کن طریقے سے شکار کے عوض  ایک ٹرالر سے فی ٹرپ  پندرہ ہزار روپے سے پچاس ہزار روپے﴿ گڈانی سے لیکر جیوانی تک﴾ رشوت لیتے ہیں ۔ اور ایک مہینے میں بلوچستان کے سمندری حدود میں آنے والے سندھ کے ٹرالروں کی کل  تعداد  تین ہزار سے چھ ہزار کے لگ بھگ ہوتی ہے ۔ مائیگیر رہنماؤں کے الزامات ﴿جن کی تصدیق خود فشریز ڈیپارمنٹ کے بعض سابق افسران اور حاضر سروس اہلکار کرتے ہیں ﴾ کے مطابق   ماہانہ پانچ کروڑ روپے وزیراعلٰی بلوچستان اور بہوروکریٹس کے درمیان تقسیم ہوتی ہے ۔
بلوچستان میں مچھلی کے تجارت سے وابستہ تاجروں کے مطابق  بلوچستان میں اگر مغربی ممالک کے قوانین کے مطابق مچھلی کی صنعتیں قائم کی جائیں تو  صرف مچھلی کے صنعت  ہی بلوچستان میں  مضبوط معشیت کی ضمانت  دینے کے لیے کافی ہے۔
فشریز ڈیپارمنٹ اور مچھلی کے تجارت کرنے والے تاجروں سے حاصل کردہ  اعداد و شمار کے مطابق  بلوچستان میں مھچلی کی  پیداوار کی کل مالیت عالمی منڈی  کے قیمتوں کے حساب سے سالانہ دو کھرب روپے سے زیادہ ہے۔  بلوچستان کے سمندری حدود میں آکر غیرقانونی شکار کرنے  والے ٹرالروں کے حوالے سے ایک محتاط اندازے کے مطابق  سندھ سے تعلق رکھنے والی تین ہزار ٹرالر سال کے نو مہینوں میں  نوے ارب روپے سے زیادہ شکار مقامی مارکٹ کو فروخت کرتے ہیں۔
اسی طرح اگر ہم بلوچستان کے معدنی وسائل پر بات کریں تو  بلوچستان میں کم سے کم  تین علاقوں میں گیس کے تصدیق شدہ ذخائر موجود ہیں۔  جن میں ڈیرہ بگٹی کے علاوہ  کوہلو اور پسنی کے علاقے شامل ہیں۔ انس سو ستاوے کو یو ایم سی  نامی کمپنی نے پسنی اور  گوادر میں دو مقامات پر تیل و  گیس کے  ذخائر کی موجودگی کی تصدیق کرنے کے بعد  سیل  کردیا تھا۔  اس کی سرکاری اعلان صرف سیاسی خوف کی وجہ سے اب تک نہیں کی گئی ہے ۔ گوادر اور پسنی میں تیل اور گیس کی ذخائر کی  موجودگی کی  تصدیق   کے بعد  وفاقی حکومت نے کوسٹل ہائی، گوادر پورٹ اور  گوادر میں  پندرہ سے پچیس سالوں کے درمیان پچاس لاکھ افراد کی آبادی کو گوادر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ جسے دوہزار چار سے اب تک بلوچ قوم پرستوں کی شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔
گوادر میں دشت کے قریب گرُک کے مقام کے علاوہ بلیدہ میں بھی تیل کے وسیع ذخاتر موجود ہیں جن کو دریافت کرنے کے بعد بھٹو اور شاہ ایران کے درمیان ہونے والے سودا بازی کے بعد سیل کردیا گیا ۔
امریکی ماہرین کے مطابق بلوچستان میں  تیل و گیس کے ذخائر کی کل مالیت کویت اور سعودی عرب کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔
اس کے علاوہ بولان اور کوہلو میں کوہلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں  چمالنگ کوہلو سے دریافت ہونے والا کوہلو کوالٹی کے لحاظ سے اعلٰی ترین اقسام میں شمار کی جاتی ہے۔
ضلع لسبیلہ کے علاقے  وندر کے پہاڑوں میں چینا کی ایک کمپنی کافی عرصے  کچھ نکال رہی ہے  بعض لوگوں کے مطابق  دودَرّ  وندر کے پہاڑوں سے دریافت ہونے والا معدن  یورینیم ہے بعض لوگوں کے مطابق یہ لیتم ہے۔ اس دریافت کا اعلان اب تک حکومت نے بھی نہیں کیا ہے البتہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ یہاں سے خام مال دڑا دھڑ چینا منتقل کی جارہی ہے۔
چینا ہی کے ماہرین کے مطابق  جیونی کے علاقے گنز میں سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔
 
 
خضدار کے علاقوں میں قیمتی پھتروں کے علاوہ فائر پروف پلاسٹک۔ سونے اور چاندی کے ذخائر موجود ہیں اسی طرح  سائیں الٰہی بخش سانگی کے مطابق  اورمارہ  اور مند کے علاقے قدرت کے خزانوں سے بھرے پڑے ہیں۔
ضلع چاغی ریکو دک اور سنیدک کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہے۔
بلوچستان میں زراعت  کو اگر ترقی ملے تو صرف لسبیلہ  اور کیچ کی زمینوں میں اتنی قوت ہے کہ بورے بلوچستان کی سالانہ ضروریات آسانی کے ساتھ پورے کیے جاسکتے ہیں۔
بلوچستان کی آبادی اگر ہم افغان مہاجرین کو شامل نہ کریں تو مشکل سے ایک کروڑ ہو۔
ہم صرف بلوچستان کے سمندری پیداوار، سونا اور چاندی  کو عالمی منڈی میں ڈال دیں، تیل و گیس، تانبہ، زراعت اور دیگر وسائل  کو صرف گھریلو  ضرورتوں تک محدود  رکھیں تو میں سمجھتا ہوں  دس کروڑ افراد کی آبادی تک پہنچنے تک بلوچستان میں ہرخاندان خوشحال رہے گا۔ 
لیکن شرط یہ ہے کہ ہم  ایک دوسرے کی قدر کرتے ہوئے اپنی بدقسمتیوں کے خلاف ایک راستہ اپنا کر جدوجہد کریں۔