بلوچ گلزمین ءِ جارچین

 

 وش آتکے

|

 Download Balochi Font and view Balochi text uniquely 

| گوانک ٹیوب | لبزانک | نبشتانک | سرتاک

|

 نام میں بھی بہت کچھ رکھا ہے

ہم اکثر کہتے ہیں کہ آخر نام میں کیا رکھا ہے لیکن اگر ہم پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد میں سرگرم بلوچ اور طالبان گوریلا جنگجوؤں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے ’نہیں نام میں بھی بہت کچھ رکھا ہے‘۔

اس سے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستانی فوج کے ساتھ برسرِ پیکار طالبان اور بلوچ مزاحمت کاروں کی مسلح جدوجہد میں استعمال ہونے والے فرضی ناموں پر اگر غور کیا جائے تو ان دونوں گروپوں کے نظریات، لڑائی کا جذبہ اور ان کے مقاصد بہت حد تک واضح ہوجائیں گے۔

 
جب کبھی بھی آپ کا قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں طالبان جنگجوؤں یا کمانڈروں سے سامنا ہوگا تو تعارف کراتے وقت ان میں سے کوئی اپنا نام ابو حمزہ، کوئی ابو خالد اور کوئی الزرقاوی بتائے گا۔ مختصراً اس فہرست میں ابو بکر، علی، اسامہ، ابو طارق، مروان، ذوالفقار اور ابو محمد وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔

جیسا کہ سوات کے طالبان سربراہ مولانا فضل اللہ کو ابو محمد، کُرم ایجنسی میں طالبان کمانڈر حکیم اللہ کو ذوالفقار، مہمند ایجنسی میں طالبان سربراہ عبدالولی کو عمر خالد اورتحریک طالبان کے ترجمان سید محمد کو مولوی عمر اور سوات طالبان ترجمان مسلم خان کو ابو طارق کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

ان ناموں سےان کے پسِ منظر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یعنی ان میں زیادہ تر ان اصحاب کرام کے نام ہیں جنہوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں ’جہاد‘ میں حصہ لیا تھا جبکہ بعض نام جیسے اسامہ، الزرقاوی اور عُظام وغیرہ ایسے ہیں جو حال ہی میں عراق اور افغانستان میں امریکہ اور دیگر غیر ملکی افوج کے ساتھ لڑائی میں مصروف عمل ہیں۔

اس کے برعکس بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ برسرِ پیکار بلوچ گوریلوں کے فرضی ناموں کو دیکھا جائے تو اس سے بلوچ قوم پرستی کی جھلک واضح طور پر دکھائی دے گی۔ جیسے کہ بلوچوں کے مختلف عسکریت پسند تنظیموں کے ترجمانوں اور کمانڈروں کے نام ہیں جن میں بالاچ خان، براہمداغ، چاکر خان بلوچ ، محراب بلوچ، شہک بلوچ، ببرگ بلوچ، دودا خان بلوچ، آزاد بلوچ اور لونگ خان بلوچ جیسے نام شامل ہیں۔

یہ وہ نام ہیں جنہیں بلوچ اپنی تاریخ میں کسی نہ کسی حوالے سے اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ جیسے چاکر خان رند یا چاکرِ اعظم پندرھویں صدی میں پہلا بلوچ حکمران گزرا ہے جنہوں نے تیس سال تک اپنے مخالف قبائلی سربراہ گُہرام خان لاشاری سے لڑائی لڑی جس میں دونوں طرف سے ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔ جبکہ شہک خان بلوچوں کے سب سے بڑے قبیلے رند کے جد آمجد اورچاکر خان کے والد تھے۔

بالاچ گورگیچ ایک بلوچ قبائلی سربراہ گزرے ہیں۔ ان کے بھائی کو مخالف قبائل نے قتل کردیا تھا چونکہ ان کی افرادی قوت کمزور تھی لہٰذا انہوں نے گوریلا انداز اپناتے ہوئے اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لیا۔ بالاچ گورگیچ کے بارے میں بلوچوں کا ماننا ہے کہ وہ ان کی گوریلا جنگی حکمت عملی کے بانی ہیں جنہوں نےبلوچ پت و ننگ کی لاج رکھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نواب خیر خش مری نے اپنے بیٹے کا نام بالاچ رکھا جو بلوچ مسلح جدوجہد کی قیادت کرتے ہوئے مارے گئے۔

مرحوم نواب اکبر خان بگٹی بھی نجی محفلوں میں بالاچ گورگیچ کو اپنا ہیرو اور قابلِ تقلید شخصیت مانتے تھے۔ لونگ خان ستر کی دہائی میں دشتِ گوران قلات میں پاکستانی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔ وہ ممتاز بلوچ شاعر، مؤرخ اور سیاستدان مرحوم گل خان نصیر کے بھائی تھے۔

بلوچ اور طالبان گوریلوں میں مزاحمتی لٹریچر پڑھنے میں بھی بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ طالبان اسلامی جہادی لٹریچر بڑے شوق سے پڑھتے ہیں جن میں مولانا مسعود اظہر اور عبداللہ عظام کی جہادی کتابیں قابل ذکر ہیں جبکہ بلوچ گوریلوں میں لاطینی امریکہ کے مشہور انقلابی رہنما چے گویرا سے متعلق لکھی گئی کتابیں بہت زیادہ مقبول ہیں۔ چے گویراکے بارے میں جو بھی کتاب مارکیٹ میں آتی ہیں تو ان میں سے زیادہ بلوچستان میں ہی بکتی ہیں جن کے زیادہ تر خریدار بلوچ نوجوان ہیں۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی بلوچ سیاسی کارکنوں کی کتابوں یا رجسٹر پر انکی تصویریں دیکھی جاسکتی ہیں۔

اس کے علاوہ بلوچوں کا وہ دانشور طبقہ جو بلوچ مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں وہ اٹلی کے مارکسسٹ نظریہ ساز، دانشور اور صحافی انتھونی گرامچی جنہوں نے مسولینی کی دورِ حکومت میں پندرہ سال جیل میں گزارے تھے کی کتابیں زیادہ پڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ فرانز فینن کی کتابیں بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں جن کی تحریروں نے تقریباً چار دہائیوں تک سامراج سے آزادی حاصل کر نے والی تحریکوں کو متاثر کیا ہے۔ بلوچوں کا دانشور طبقے میں لیبیا کو اٹلی سے آزادی دلوانے والے عمر مختار کے متعلق لکھی گئی کتابیں بھی زیادہ مقبول ہیں۔

طالبان اور بلوچ مزاحمت کاروں کے حلیوں میں بھی زیادہ فرق پایا جاتاہے۔ طالبان کی بڑی داڑھیاں، لمبے بال اور شلوار قمیض ہوتی ہے اور ان میں زیادہ تر اپنے چہرے حماس جنگجؤوں کی طرح ڈھانپتے ہیں۔ جبکہ بلوچ مزاحمت کاروں کی بڑی بڑی شلواریں ہوتی ہیں اور طالبان طرز کے بڑے بڑے بال مگر بگٹی سٹائل کی داڑھیاں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض بلوچ مزاحمت کاروں کے سروں پر روایتی بلوچ پگ ہوتے ہیں۔

www.balochwarna.com