بلوچ گلزمین ءِ جارچین

 

 وش آتکے

|

 Download Balochi Font and view Balochi text uniquely 

| گوانک ٹیوب | لبزانک | نبشتانک | سرتاک

|

POSTED20080829 Gwadar

پا کستانی فوج نے گوادر سے26کلومیٹر دورواقع گاﺅں
گرانڈانی کو محاصر ے میں لے کر چھاﺅنی کی تعمیر
کی تیاریاں تیز کردیں ہیں۔

 

گوادر ( رپورٹ :قاضی ) پاکستانی فوج نے گوادر سے26کلومیٹر دورواقع گاﺅں گرانڈانی کو محاصر ے میں لے کر چھاﺅنی کی تعمیر کی تیاریاں تیز کردیں ہیں۔اسکول اور ڈسپنسری کے تالے توڑ کر انہیں رہائشی کواٹر کے طور پر استعمال کیا جارہاہے ۔پچاس گھرانوں پر مشتمل چھوٹے سے گاﺅں کےمسجد سے دوگز کے فاصلے پر دونوں اطراف فوج نے مورچے باند ھ کر اپنی بندوقوں کا رخ گاﺅں کی طرف کر لیا ہے جس سے گاﺅں میں شدید عدم تحفظ کا احساس پیداہوگیا ہے ۔گاﺅں والے الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کی زمینیں ان کی مرضی کے بغیر ہتھیاگئے ہیں اور فوج نے اچانک ان کی چادر اورچاردیواری کی تقدس کو پائمال کرتے ہوئے علاقے کو محاصرے میںلیاہے ۔فوج نے ان کے بچوں کو اسکول سے بے دخل کر کے ہسپتا ل کو بھی قبضے میں لے کر اپنا ڈیرہ جمالیا ہے ۔گزشتہ روز صحافیوں کو علاقے کا دورہ کراتے ہوئے ۔گرانڈانی چھاونی کے مسئلے پر بنائے گئی ایکشن کمیٹی کے چیئر مین اللہ بخش نے کہاکہ انہیں معلوم نہیں کہ فوج نے کس طرح اچانک ہماری زمینوں پر قبضہ کر لیا ۔ جب اس متعلق فوج سے بات کی تو ا س نے یہی بتایاکہ اس نے ہماری زمین کی قیمت اداکی ہے لیکن آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ اس نے کس طر یقے سے یہ زمین خریدی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ انہوںنے ہمارے گھروں میں گھس کر ناجائز قبضہ جمایاہے ۔ہم گورنمنٹ اور ترقیاتی کاموں کے خلاف نہیں لیکن اس طرح بھی نہیں چاہتے جو ہمارے ساتھسلوک کیا جارہاہے ۔ہماری زمینوں کو کیٹگری وائزکرکے قیمتوں کا تعین کیا گیا ہے جب کہ یہاں پر مواضع جات کے حساب سے زمینوں کی تقسیم کی جاتی ہے ۔کچھ لوگوں نے سازش کے ذریعے ہماری زمینوں کو اپنے نام پر ٹرانسفر کرکے فروخت کیاہے اور ہماری متبادل رہائش کا بھی کوئی بندوبست نہیں ۔ضلع ناظم ، ڈی سی او اور وزیر اعلیٰ سمیت مشیر داخلہ کو مسئلے سے آگاہ کیاہے اور ا س کے خلاف آئینی وسیاسی جدوجہد کررہے ہیں اس کے باوجود فوج ہمارے سر وں پر بیٹھی ہوئی ہے اورارباب اختیاراس سلسلے میں بات کرنے کو بھی آمادہ نہیں ۔پہلے جب ہمیں حکومتی نمائندگان نے تسلی دی تو ہمیں اطمینان حاصل تھا لیکن اب جب ہم فوج کو اپنی زمین پر قبضہ کےے ہوئے دیکھ رہے ہیں تو ہم بے چین ہیں ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سارے لوگ موجود ہیں اگر کوئی دعویٰ کرتاہے توبتائے کہ کس نے پیسے لےے ہیں اس پر تحقیقات کر کے ریکارڈ سامنے لائے جائیں ۔دربیلہ کے بزرگ رہائشی حاجی حسن نے کہاکہ میں نوپشتوں سے یہاں آباد ہوںاور ہم یہاں کے بنیادی رہائشی ہیں کہیں سے ہجرت کرکے نہیں آئے ہیں ۔ہماری آبادی پندرہ سوسال پرانی آبادی ہے یہاں پر نہ پاکستان کو دیکھا ہے نہ عمان کوالبتہ سنتے تھے کہ یہاں پر ان کی بھی حکومت تھی ۔ہمارایہاں کوئی محافظ بھی نہیں تھا ہم اپنی حفاظت خود کرتے تھے، اپنی مرضی کے مالک تھے اور اپنے طریقے سے معاش کا بندوبست کرتے تھے ۔لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ لینڈ مافیانے جال بچھاکر ہماری زمینوں پر قبضہ کر لیاہے ہم نے کسی سے اس کے بدلے کوئی پیسہ نہیں لیا بلکل نہیں ۔ہمارے اسکول اوراہسپتا ل پر فوج نے قبضہ کیا ہے اور ہمیں سب سے دستبردار کیاجارہاہے ۔ہمارا قبرستان جہاں ہمارے بزرگ دفن ہیں اس کی ہم حفاظت کا مطالبہ کررہے ہیںاور انہوں نے وہیں پر مورچے بنالےے ہیں ۔جنہوں نے جعلی مختارنامے بناکر ہماری زمینوں کا سوداکیاہے انہیں اور ہمیں آمنے سامنے کر کے سوال کیا جائے کہ کس نے خوشی اور اپنی رضاسے پیسے لےے ہیں ۔انہوںنے مطالبہ کیاکہ سرکار ہماری زمین ، جان او ر املاک کو تحفظ فراہم کرئے اگر ایسانہ ہواتو کوئی بات نہیں مقابلے کے لےے تیار ہیں ۔اسکول کے طالب علم سلیم نے بتایاکہ پچھلے ایک مہینے سے ان کے اسکول پر فوج کا قبضہ ہے جس سے اس کی پڑھائی متاثرہورہی ہے جب کہ تیسری جماعت کے طالب علم عبدالرزاق نے مطالبہ کیا ہے ہ فوج ان کے اسکول کو خالی کرکے چلی جائے تاکہ وہ وہاں پڑھ سکیں ۔60سالہگیسٹرو کے مریض نے بتایاکہ میں ہسپتال پر فوج کے قبضے کی وجہ سے اپنا علاج نہیں کراسکتا ۔ میرے پاس پیسے اور علاقے میں پختہ سڑک نہیں تاکہ شہر جاسکوں ۔انہوںنے ایک سوال کے جواب میں سوالیہ انداز میں کہاکہ جب ہماری چاروں طرف فوج ہوتوتم ہی بتاﺅ کہہم کیاکریں تم میرے پاس آئے ہو میں حیران ہوں کہ تم میرے جاسوس ہوکہ فوج کے ۔فوجیوں کے پاس جاتا ہوں تو وہ میری بات نہیں سمجھتے اور میں ان کی بات نہیں سمجھتا ۔تم اس ہسپتال کی عمارت کے علاوہ کوئی سہولت دیکھتے ہو تو بتاﺅ ۔انہوںنے بے بسی سے کہاکہ نہیں جانتا سر کار میرے بارے میں کیاسوچ رہی ہے ۔یہاں میرے
پا س کچھ نہیں ۔چاروں طرف فوج ہے درمیان میں ہم ہیں اپنے مال مویشی چرانے نہیں جاسکتے عورتیں پانی بھرنے جا تی ہوئی ڈرتی ہیں ۔ ہرطرف فوجی دوربین اور سر چ لائٹ لےے پھرتے ہیں ۔نوجوان حید ر نے کہاکہ میں نے اپنی زمین اس وقت بھی نہیں بیجھی جب اس کی قیمت دس لاکھ روپے فی ایکڑ تھی ۔ہم یہاں سے جائیں تو کہاں ۔ہمیں یہ زمین چاہئے پیسے نہیںکیوں کہ پیسہ تو آج ہے کل نہیں ۔میں نے کسی کویہ اختیار نہیں دیا کہ وہ میری زمین کا سودا لگائے ´فوج ہم سے طاقتور ہے اس لےے ہماری زمین پر قبضہ کر کے بیٹھی ہے ۔اُن بلوچ قوتوں سے مدد کا طلبگار ہوں جومسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔محمد نے بھی یہی کہاکہ زمین کے بدلے پیسے لینے کوکوئی آمادہ نہیں فوج چاہئے یہاں پر بمبار منٹ کر ئے اپنی زمین نہیں چھوڑیں گے ۔جیھند نے کہاکہ میر اپیغام ہے اپنے لوگوں اور سرکار کو کہ فوج نے ہمارے چند اپنے بلوچ بھائیوں کی مدد سے ہماری زمینوں پر قبضہ کر لیاہے ۔مسئلہ سر کار حل کر ئے اگر نہیں تو پھر روایت کے مطابق بلوچ بھائی مدد کو آئیں ۔زمین مادر وطن ہے سوداکرنے کا نہیں سوچ سکتے ۔جنگ نہیں چاہتے اگر جنگ چھیڑ دی گئی تو مادر وطن کے دفاع کے لےے قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔