بلوچ گلزمین ءِ جارچین

 

 وش آتکے

|

 Download Balochi Font and view Balochi text uniquely 

| گوانک ٹیوب | لبزانک | نبشتانک | سرتاک

|

قوم دوست متوجہ ہوں بحر بلوچ ، بلوچ دشمن مافیاکے نرغے میں ہے

قاضی داد محمد ریحان

 
یکم اپریل 2009کی ایک یادگار شام جوشاید ہمیشہ میری یاداشت میں تازہ رہے گی ۔اس شام غروب آفتاب کے وقت راقم ، نصیر کمالان اور شہید لالہ منیر گوادر کے پدی زر(مغربی ساحل ) میں چہل قدمی کرتے ہوئے کلک کی طرف جانے والے راستے کے ابتدائی کونے پر سمندر کے دلفریب نظارے سے لطف اندوزہونے کے لیے بیٹھ گئے ۔میں نے لالہ سے کہا
کہ وہ ریت پر بیٹھیں لیکن لالہ نے اس سے اتفاق نہ کرتے ہوئے ہم سے ذرا دور ایک صاف ستھرے پتھر کا چناﺅ کیا اور اسی پر بیٹھ گئے ۔لالہ کی نظریں سمندر پر جمی تھیں اور وہ سگریٹ کا کش لگارہا تھا اُن کے چہرے پر سرور اور حسرت کے ملے جلے تاثرات کوپڑھنا میرے لیے انتہائی آسان تھا کیوں کہ میں اپنے سمندر کی خوبصورتی اور اس پر بیرونی یلغار کے احساسات کو بیک وقت محسوس کرتے ہوئے روزانہ اسی کر ب سے گزرتاہوں ۔ بعد میں لالہ نے اپنے ان تاثرات کا اظہار جن الفاظ میں کیا وہ چند سیکنڈ اب بھی اُن کے پیئے ہوئے سگریٹ کے چند فلٹروں کی طرح ہمارے پاس محفوظ ہیں :”من یک فطری سرورے زُرت منی چم ھمے زرے تمامیں دمگ ئَ کہ کپت من گو اَخ آہ .......................اے زرئِ مالک بہ بیت آئی ئَ را نان نیست آئی ئَ را جان نیست ءُ اینگتہ پرھنگی ئِ غلام گُش اِیت کہ من اے زر ئَ بریں (بر آں ) مئے گڑا مرگ اِنت کہ نوں ایشی ئَ بہ بارت ۔“(شھید لالہ منیر یکم اپریل 2009۔گوادر ) میں نے ایک فطری سرور محسوس کیا ، جب سمند ر کی طرف دیکھا میں نے کہا اَخ آہ............................جواس سمندر کا مالک ہواس کوکھانا نہیں ملتا، اُس کی صحت اچھی نہیں اور پھر بھی فرھنگی کا غلام کہتا ہے کہ میں سمندر پر قبضہ کرلوں گا ۔اب  اگراس پر قبضہ کیا تو یہ ہماری موت ہے ۔ ”شہید لالہ منیریکم اپریل2009۔گوادر
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بحر بلوچ کا بلوچستان کی جغرافیائی اور معاشی اہمیت کو بڑھانے میں کلید ی کردار ہے ۔بلوچ جنگ آزادی یا کہ دوسرے الفاظ میں اپنے وسائل پر مکمل اختیار کی جنگ میں بھی بحر بلوچ کواولیت حاصل ہے دشمن کی نظریں سب سے زیادہ بلوچ ساحل پر ہے ۔گوادر اور اس کے قرب وجوار کی تمام زمینیں آبادکاری کے لیے پنجابی اور ان کے دلالوں نے خر ید لیے ہیںاور باقی بچی ہوئی زمین فوجی چھاﺅنیوں کے لیے ہتھیا ئی گئی ہے ۔ان زمینوں کی ملکیت کے حصول میں ان کو کسی قسم کی مزاحمت کاسامنا نہیں کرنا پڑ اکیوں کہ آج سے 30سال پہلے بنائے گئے ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت یہاں کی غیر آباد زمینوں کو بھی چند گھرانو ں کے نام کیا گیا تھا تاکہ ان سے سودابازی کرنے میں آسانی رہے ۔لیکن عام بلوچوں کی مزاحمت اور گوادر کے سیاسی حالات کا بلوچستان کے قوم دوستانہ سیاست سے ہم آہنگ ہونے کی بناءپر نوآبادکاری کے ریاستی منصوبے اس انداز میں آگے نہیں بڑھ رہے جس طرح قابض قوتوں نے سوچ رکھاتھا۔
بحر بلوچ پر بلوچ ملکیت کا دعویٰ یہاں رہنے والے بلوچ ماہی گیروں کی وجہ سے ہے جوکہ یہاں ہزارہاں سالوں سے رہ رہے ہیں ۔بلوچوںنے مغرب سے مشرق کی طرف ہجرت کرتے ہوئے ان علاقوں میں کافی عرصے تک قیام کیا ۔اندرون سندھ اور کلانچی (کراچی ) کے بلوچوں کے آباﺅ اجداد ان ہی علاقوں سے وہاں منتقل ہوئے ہیں لیکن شدید قحط سالی ،کٹھن موسمی حالات اور بیرونی حملہ آﺅروں کا جرا ¿تمندانہ سامنا کرتے ہوئے چند بلوچوں نے اس سر زمین کو خیر آبا د کہنا گوارانہ کیا ۔ان ہی بہادر بلوچوں کی بدولت آج یہ ساحل بحر بلوچ اور اس پٹی پر آباد شہر او ر قصبات بلوچ ملکیت میں ہیں ۔آج بھی قابض قو ت کی گوادر شہر پر قبضہ گیری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہاںکے مقامی بلوچ ماہی گیر ہیں جوکہ اپنے ساحل سے منتقل ہونے کوکسی طور بھی آمادہ نہیں کیوں کہ یہ نہ صرف ان کی جنم بھومی ہے بلکہ وہ اسے اپناذریعہ معاش بھی سمجھتے ہیں ۔قابض قوتوں نے کئی منصوبے ڈرائنگ کیے ہوئے ہیں جن کے مطابق اس ساحل پٹی سے بلوچوں کو معاشی اور تجاری سر گرمیوں کے مراکز سے بتدریج دور دھکیلاجائے گا تاکہ یہاں آبادہونے والے پنجابیوں کو ہر قسم کے سیاسی اور سماجی خطرات سے محفوظ کیاجاسکے ۔
سامراجی طاقتوں کے منصوبے قرون وسطیٰ میں بھی نہایت شاطرانہ ہوتے تھے ۔بادشاہوں کے سیاسی اُستاد ”گاجر اور ڈنڈ ے ، بگل میں چھری منہ میں رام رام “ جیسے گھناﺅنے خیالات کو سیاست کے ابجد کے طور پر شہزادوں کو پڑھایا کرتے تھے ۔عصر حاضر میں بھی انہی روایات کی پاسداری میں سامراجیت کے نقش قدم چلنے والوںنے اپنے قبضے کو دوام بخشنے کے لیے کئی زیادہ خطرنا ک اور مکارانہ منصوبہ بندی کے گُر دریافت کیے ہیں ۔اب قبضہ گیری کا یہ عمل محضعسکری طاقت کے ذریعے نہیں ہوتابلکہ تاریخی تناظر میں فوجی قبضے کو عارضی اور غیر مستقل سمجھا جاتا ہے اب بیرونی آبادکا ر شہر وںپر مقامی آبادی کے قبضے کو ختم کر نے کے لیے سیاسی اوراقتصادی گٹھ جوڑ کو اہمیت دیتے ہیں ۔ہندوستان پر انگریز کا قبضہ چند انگریز تاجروں کی مغل سلطنت سے تجارتی راستہ ہموار ہونے کی وجہ سے ممکن ہو ا انگریزوںنے اپنی تجارت کو محفوظ بنانے کے لیے مغل سلطنت سے مسلح محافظ ساتھ رکھنے کی اجازت طلب کی جو بعد میں قابض فوج کی شکل اختیار کر گئے ۔گوادر شہر پر قبضہ گیری کا منصوبہ بھی اسی طرز کاہے یہاں ڈیپ سی پورٹ کی تعمیر کے بعد اس کے تحفظ کے لیے بھانت بھانت کے فورسز لائے گئے ہیں جوچوبیس گھنٹے سڑکوں پر گشت کر کے مقامی آباد ی کو خوف میں مبتلا کیے یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ وہ نہتے اور کمزور جب کہ قابض قوت مسلح اور طاقتور ہے ۔ اس ماحول میں گوادر شہر قطعاً رہنے کے قابل نہیں جہاں مشتر ک سماجی قدریںموجود نہ ہو ،حقیقی سیاسی نمائندگان پر کار پوکریٹ سیاستدانوں کو فوقیت حاصل ہو ،معتبریت کا معیار مالی حیثیت قرار پائے ، اکثر یت عقل کی بجائے پیٹ سے سوچتا ہواورجولوگ ان بھولے بھالے معصوم لوگوں کے دفاع اور خوشحال مستقبل کی خاطر اپنی زندگی داﺅ پر لگائے ہوئے ہیں ان سے بیگانگی کا رویہ ہو تو وہاںکسی بھی حساس شخص کی زندگی جہنم بن سکتی ہے ۔
لیکن زندہ انسان وہی ہیں جو زندہ رہنے کا گُر جانتے ہیں اور ہر چُناوتی(چیلنج ) کا مقابلہ کر نے کے لیے میدان میں موجود رہتے ہیں ۔یہاں کی بلوچ ماہی گیر آبادی کو ہم کسی بھی نام سے موسوم کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اُن کی ساحلی پٹی پر موجودگی دشمن کے استحصالی منصوبوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔قابض کی بھر پور کوشش ہے کہ انہیں گوادر کے ساحل سے بے دخل کیاجائے ۔جیسا کہ تمہیدی سطور میں عرض کیا گیا ہے کہ سامراجی منصوبے انتہائی پیچیدہ اور مکارانہ ہوتے ہیں جنہیں تہہ در تہہ اور مرحلہ وار آگے بڑھا یا جاتاہے ۔گوادر سے بلوچ آبادی کو بے دخل کر نے کا منصوبہ بھی اسی طرح ہے ۔قابض قوت سمجھتی
 ہے کہ سمندر کو بانجھ بنائے بغیر وہ بلوچ ماہی گیروں سے سمندر کے دائمی اور موروثی رشتے کوختم نہیں کرسکتا ۔اس لیے وہ اپنی تما م تر توانائیاں اسے بانجھ بنانے میں صرف کررہے ہیں۔بحر بلوچ میں ٹرالرنگ جوکہ بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کی ماہی گیری قوانین کے مطابق بھی ( بارہ نارٹیکل میل کی اندر) غیر قانونی ہے لیکن پنجابی فورسز اور ان کے مقامی دلالوں کی ملی بھگت سے غیر مقامی ٹرالر نگ (جن کے بیشتر مالک پنجابی ریٹائرڈ کرنل جرنل ہیں )ورسمندری حیات کی نسل کشی میں ملوث افراد کو تحفظ دینے میں مافیا، مقامی بااثر شخصیات اور اخبارات سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں ۔
مقامی ماہی گیر اپنے اس مسئلے پر بلوچ حقیقی قوم دوست قوتوں کی طرف سے واضح موقف نہ آنے کے سبب یہ شکوہ کرتے ہیں کہ بلوچ ساحل وسائل کے تحفظ کے دعویدار طاقتیں سیند ک پروجیکٹ ، سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے گیس ، چمالنگ کے تیل اور دیگر وسائل کی لوٹ مار کو روکنے کے لیے واضح اقدامات کررہے ہیں لیکن بحر بلوچ میں جاری اس لوٹ مار کو روکنے کے لیے وہ لفظی اظہار سے بھی گریزاں ہیں ۔ اُن کے موقف کو سمجھا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ قابض قوت بلوچ ساحل کو محض تجارتی گزر گاہ کے طور پر اپنے قبضے میں رکھنا چاہتی ہےعالمی سامراجی قوتوں کے نزدیک بھی بحر بلوچ کی اس سے زیادہ اہمیت نہیں اور ہم بھی نفسیاتی طور پر ساحل کو محض تجارتی گزر گاہ سمجھ رہے ہیں حالانکہ سمندر کی سب سے بڑی دولت سمندر ی حیات ہے جو کروڑوں سالوں سے بنی آدم کے خوراک کی ضروریات پور ی کررہی ہے جو کہ ہمارے اس علاقے میں موجودگی کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے ۔ہم تجارت پیشہ نہیں ہمارا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے یہاں کی تجارت کے فروغ سے یہاں کے مقامی آبادی کی زندگی میں کسی خوشگوار ی تبدیلی کا امکان نہیں یہاں کی مقامی بلوچ آبادی کی خوشحالی کا ضامن ماہی گیری کی صنعت کا استحکام ہے جس کی تباہی کا مطلب بلوچ ماہی گیروں کو بھوک اور افلاس میں مبتلا کر کے یہاں سے ہجرت یاپھر یہاں آنے والے غیر مقامی صنعت کاروں اور تاجروں کی غلامی پر مجبور کرنا ہے اگر بلوچ ساحل تحریک کے ایجنڈے کا حصہ ہے تو تحریک کے سر کردہ لوگ اس معاملے پر خاموش کیوں ہیں ؟ بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی بیان پر ان کا یہ احساس قدرے کم تو ہواہے لیکن اس مسئلے پر بیان کے حد تک حمایت کافی نہیں ہمیں ٹھوس عملی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ٹرالر مافیا جوکہ ریاستی طاقت کے ساتھ ایک منظم استحصالی گروہ ہے کہ مقابلے میں بلوچ ماہی گیروں کی تنظیم مید اتحاد ماہی گیروں کی اکثریت کی حمایت کے باوجود کمزور ہے جس کو اس جنگ میں ہماری بھر پور مدد کی انتہائی ضرورت ہے ۔ہمارے کچھ دوستوں نےمقامی سطح پر بی این ایم اور بی آر پی کی طر ف سے ٹرالرنگ مسئلے پر مید اتحاد کی حمایت کو شدید تنقید کانشانہ بناتے ہوئے اسے حریت پسندانہ موقف سے انحراف قرار دیاتھا جوقطعاً طور پر درست نہیںہم اگر ا پنے اُوپر پاکستان کے عسکری یلغار کے خلاف احتجاج کر نے میں حق بجانب ہیں تو اپنی معاشی استحصال کے خلاف آواز اٹھانا بھی کسی طور جدوجہد آزادی میں ابہام کا باعث نہیں بن سکتا۔سمندر ی حیا ت کے تحفظ کے لیے ڈٹ جانا اور دنیا کو اس طرف متوجہ کرناضروری ہے کہ بلوچ ساحل جہاں سےکئی ممالک کو مچھلی درآمد کی جاتی ہے آلودگی کے خطرے سے دوچار ہے اس لیے بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں کو اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے متعلقہ اداروں کو پابند بنانا چاہئے کہ وہ سمندر ی حیات کی نسل کشی اور سمندر کو آلودگی کا باعث بننے والے جراہم کے سدباب کے لیے موثر اقدامات کریں ۔
بلوچ ساحل پر بسنے والے لاکھوں بلوچ ماہی گیروں کا سب سے بڑامعاشی مسئلہ بلوچ ساحل پر غیر بلوچ ٹرالروں کایلغار ہے جوکہ ریاستی سر پرستی میں جاری ہے یہ نسل کشی میں ملوث کشتیاں اپنے خطرناک جالوں سے مچھلی کے انڈوں تک پکڑتے ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں ٹن وہ مچھلیاں ضائع ہوجاتی ہیں یہ انڈے جو کہ سمندری حیات کے لیے بیج کا درجہ رکھتے ہیں اتنی بڑی تعداد میں ختم کی جارہی ہیںکہ گزشتہ دودہائیوں میں سمندر سے مچھلی کی درجنوں نسلیں نایاب ہوچکی ہیں۔پسنی کے مقامی لوگوں سے روزی چھینے کے لیے غیر مقامی بنگالی اوڑوں والوں کوجوکہ سمندری حیات کی نسل کشی کا سبب بننے والے جالوں کا استعمال کرتے ہیں سر کاری سر پرستی میں شکار کی دعوت دی گئی ہے یہ بادی النظر میں عام سی باتیں نظر آتی ہیں لیکن یہ اتنا سادہ مسئلہ نہیں پنجابی مقتدرہ ہماری معشیت کو کمزور کر کے ہمیں تباہی کے دہانے پر لے جانا چاہتا ہے تاکہ ہماراقومی مسئلہ ہمارے افلاس کے آگے ثانوی حیثیت اختیار جائے ۔یہی مسئلے بلوچستان کے علاوہ کے علاوہ کسی دوسرے جگہ پر ہوتے تو وہاں پوری میڈیاوزراء، پارلیمنٹ اور اداروں کے سر براہان اس کے تدارک کے لیے اکھٹے ہوجاتے لیکن چونکہ یہ معاملہ بلوچستان کا اور خالص بلوچوں سے وابستہ ہے اس لیے کوئی اس پر بات کرنے کو بھی تیار نہیںیہاں بنگالیوں کی آمد کسی فارن ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں ۔ٹرالرنگ کرنے والے مسلح لوگ کسی حکومت رِٹ کے چیلنج کا باعث نہیں یہ سب کیوں .................................؟؟جواب سادہ لفظوں میں یہ ہے کہ یہ وسائل بلوچوں کے ہیں جسے پنجابی مقتدرہ اپنا دشمنسمجھتا ہے۔ اس لیے اسے نقصان پہنچانے والے عناصر کی کھلم کھلا سر پرستی کی جارہی ہے حکومتی رِٹ کا راگ الاپنے والے ادارے اس لو ٹ مار میں شامل مافیا کو خود شہہ دے رہے ہیں ۔کوہلے کی اس دلالی میں کالی وردی والوں کو تو کوئی گنتی میں ہی نہیں لاتا اب سفید وردی والوں کی وردی بھی داغدار ہوچکی ہے یا شاید نہیں کیوں کہ وہ اپنے ریاستی استحکام کے لیے ایک وفادارانہ خدمت سر انجام دیتے ہوئے بلوچ ساحل کو کنگال کر رہے ہیں جس کے نقصانات اُن کے بلوچ دشمنوں کو ہوگا۔
ٹرالرنگ کے بعد آج کل بڑی زوروں سے جاری گوادر فشریز (جی ٹی ) پر ڈیزل کے کاروبار ایک بحران کو جنم دینے کا باعث بن رہاہے ۔ڈیزل کے اس کاروبارکی وجہ سے جوکہ ریاستی قوانین کے تحت غیر قانونی اور اسمنگلنگ کے زمرے میں آتاہے روزانہ دوہزار سے زائد لیٹر سمندر بر د ہوجاتاہے جس سے نہ صرف سمندری حیات کے لیے کئی خطرات جنم لے چکے ہیں بلکہ بلو چ ماہی گیروں کو بھی کئی بیماریوں کا خدشہ ہے ۔ طبی ماہرین کے مطابق ڈیزل سے آلودہ سمندر میں نہانے اور شکار کھیلنے کے لیے جانے والے لوگوں کو آنکھوں اور جلد کی بیماریاں ہوسکتی ہیں ۔اس آلودہ پانی میں رہنے والی مچھلیوں کے استعمال سے گلے اور سانس کی بیماریاں پید اہوتی ہیں ۔جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈیزل ساحل کو صرف آلودہ کرتاجہاں بڑی مچھلیاں نہیں ہوتیں ۔ وہ غلط فہمی کا شکار ہیں اُن کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہر جگہ زندگی کا ایک سسٹم ہوتاہے جہاں ہر جاندار ایک دوسرے کے ساتھ جڑ اہوا ہے جسے ”حیاتیانی زنجیر “کہاجاتاہے اسی طرح سمندر کا بھی ایک حیاتیانی نظام ہے ۔بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں اور جھینگوں کا شکار کرتی ہیں جوکہ ساحل سے اپنا خوراک حاصل کرتی ہیں آلودہ ساحل سے خوراککھانے کی وجہ سے ان میں جو بیماریاں جنم لیتی ہیں وہ بڑی مچھلیوں میں منتقل ہوجاتی ہیں۔اس سنگین ماحولیاتی اور معاشی مسئلے کو لے کر بلوچ ماہی گیروں کی تنظیم مید اتحاد نے ہمیشہ کی طرح موثر تحریک کا آغاز کیا ہے نہ صرف مقامی ماہی گیروں کو اس مسئلے پر متحرک کیا گیاہے بلکہ کونسلنگ کے ذریعے اس کاروبار سے منسلک افراد کوبھی ان خطرات کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے جن کا مستقبل میں سامنا کرنا پڑ سکتاہے ۔لیکن ریاستی سر پرستی میں ڈیزل کے کاروبار سے منسلک افراد جوکہ ایک مضبوط مافیاکی شکل اختیار کر چکے ہیں مقامی ماہی گیروںاور نمائندگان کو دھمکارہے ہیں۔مقامی ماہی گیروں کے نمائندگان کے مطابق پورٹ آف سنگاپور اتھارٹی ( پی ایس اے ) کی طرف سے انہیں بارہا منع کیا جاچکاہے کہ پورٹ کے اطراف شکار نہ کریں لیکن اس اطراف وافر شکار ہونے کی وجہ سے ماہی گیروں کے لیے اس حکم پر عملدرآمد کا مطلب روزگار سے محرومی ہے ۔ڈیزل کا کاروبار اس شکار گاہ کو تباہ کرسکتی لہذا سر کار اس کاروبار کی پشت پناہی کرکے اس کو تباہ کروارہاہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری کے مصداق نہ مچھلی ہوگی نہ بلوچ ماہی گیر شکار کریں گے ۔اس نازک صورتحال میں بلوچ قومی تحریک کی نمائندہ جماعتوں کا یہ قومی فریضہ بنتاہے کہ وہ اپنے بلوچ ماہی گیر بھائیوں کے ساتھ بھر پور اظہار یک جہتی کرتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ ہونے کااحساس دلائیں تاکہ مافیا جو کہ دھمکی آمیز رویے کا مظاہرہ کررہاہے محتاط ہوں اور بلوچ ماہی گیروں کو اس ہیں ۔اُن کے دکھ درد بلوچ قوم سے الگ نہیں ہوسکتے اور پھر بلوچ ساحل کو بانجھ بنانے کا عمل ایک گروہ یا کمیونٹی کا نہیں ایک قومی مسئلہ ہے ۔ اگر پارلیمانی جماعتیں مجرمانہ غفلت کررہی ہیں تو ہمیں عملاًآگے آکر بلوچ قوم پر ثابت کرنا ہوگا کہ ہم غیر پارلیمانی سیاست سے کئی بہتر انداز میں اپنے مسائل کے حل کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
٭٭٭٭