بلوچ گلزمین ءِ جارچین

 

 وش آتکے

|

 Download Balochi Font and view Balochi text uniquely 

| گوانک ٹیوب | لبزانک | نبشتانک | سرتاک

|

ایران کے آئینی ادارے اور طاقت کا توازن

ماہ پارہ صفدر

ماہ پارہ صفدر
بی بی سی اردو، لندن

Wednesday, 17 june, 2009, 03:56 GMT 08:56 PST /BBC

ایران کے طاقتور ڈھانچے میں صدر کا عہدہ کتنے اختیارات کا حامل ہے۔ یہ جاننے کے لیے آئیے اختیارت کے تناظر میں ایران کے طاقتور حکومتی ڈھانچے پر نظر ڈالیں۔ ایران کے آئین میں رہبر اعلیٰ ملک کا اعلیٰ ترین عہدہ ہے۔


رہبر اعلی
آیت اللہ علی خامنہ ای
جیسا کے نام سے ظاہر ہے رہبر اعلیٰ ملک کا سب سے زیادہ با اختیار عہدہ ہے۔ ملک کے دوسرے مضبوط ادارے شورائے نگہبان کے چھ ارکان کی نامزد گی کے علاوہ طاقت کے اہم ترین منبع مسلح افواج اور پاسداران انقلاب کے کمانڈروں کی تقرری رہبر اعلیٰ کے اختیارات میں شامل ہے۔
ایران میں نماز جمعہ کے اجتماعات کو خصوصی اہمیت کے حاصل ہے اور جمعے کے خطبے ملکی پالیسیوں کے عکاس سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے لیے اماموں کی تقرری بھی رہبر اعلیٰ ہی کرتے ہیں۔ جبکہ صدارتی انتخابات کے نتائج پر مہر تصدیق بھی رہبر اعلیٰ ہی ثبت کرتے ہیں۔
ملکی سلامتی، دفاع اور اہم خارجہ پالیسی کے فیصلے کا اختیار فرد واحد رہبر اعلیٰ کے پاس ہے۔ ملکی سکیورٹی کے ادارے رہبر اعلیٰ کو جواب دہ ہیں تاہم خود رہبر اعلیٰ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں۔
موجودہ رہبر اعلیٰ بانیء انقلاب آیت اللہ خمینی کے جانشین اور ان کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔اس عہدے کی معیاد تاحیات ہے۔ رہبر اعلیٰ کے بعد دوسرا طاقتور ادارہ شورائے نگہبان ہے۔


شورائے نگہبان
شورائے نگہبان خود براہ راست منتخب ادارہ نہیں ہے۔ تاہم مجلس یعنی پارلیمان کے متوقع امیدواروں کا فیصلہ یہ مجلس ہی کرتی ہے۔ منتخب مجلس کے منظور کردہ قوانین شورائے نگہبان کی توثیق کے بغیر نافذ نہیں کیے جاسکتے۔ یہ ادارہ شریعت کی اپنی تشریح کے مطابق شریعت سے مطابقت نہ رکھنے والے مجلس کے منظور کردہ قوانین کو ویٹو کرسکتا ہے۔
شورائے نگہبان کے بارہ ارکان میں سے چھ فقہی ماہرین ( مذہبی رہنما) کی نامزدگی رہبر اعلیٰ کرتے ہیں۔ جبکہ چھ قانونی ماہرین کی نامزدگی عدلیہ کرتی ہے۔ تاہم بعد میں پارلیمان ان کی منظوری دیتی ہے۔
صدارتی اور مجلس کے متوقع عوامی نمائندوں کی اہلیت کا فیصلہ بھی یہ ادارہ ہی کرتا ہے۔ 2005 میں ایسے درجنوں صدارتی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے تھے جو شورائے نگہبان کے اختیارات محدود کرنے کے خواہشمند تھے۔


مجلس خبرگان

اقتدار کے ڈھانچے میں ایک اور طاقتور ادارہ مجلس ماہرین یا مجلس خبرگان ہے۔ چھیاسی ارکان کا انتخاب آٹھ برس کے لیے براہ راست تو کیا جاتا ہے۔ مگر اس میں صرف علماء اور مذہبی رحجان کے حامل حضرات حصہ لے سکتے ہیں اور امیدواروں کی حتمی منظوری شورائے نگہبان کی مرہون منت ہے۔
یہ ادارہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدے کا انتخاب کرنے کے علاوہ اس کی کارکردگی پر نگاہ رکھنا بھی اس کے دائرہ کار میں شامل ہے اور فرائض پر غفلت برتنے پر یہ مجلس رہبر اعلیٰ کو برطرف بھی کرسکتی ہے۔
تاہم اسلامی انقلاب کے بعد سے اب تک ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی جب مجلس خبرگان نے رہبر اعلیٰ پر نکتہ چینی کی ہو۔ اس مجلس میں بھی شورائے نگہبان کی طرح سخت گیر مذہبی عناصر کی اکثریت ہے۔ گزشتہ صدارتی انتخابات کے ناکام امیدوار آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی اس مجلس کے سربراہ ہیں۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں بھی ان پر کھلے بندوں بد عنوانی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔


عدلیہ
ایرانی آئین میں ایک اور طاقتور ادارہ ملکی عدلیہ ہے جو سیاسی اثر و رسوخ سے کبھی آزاد نہیں رہا۔ عدلیہ کے سربراہ رہبر اعلیٰ کے نامزد کردہ اور ان ہی کو جوابدہ ہیں۔ عدلیہ اسلامی قوانین کی سختی سے پابندی کروانے کے علاوہ شورائے نگہبان کے بارہ میں سے چھ ارکان کی نامزدگی بھی کرتی ہے۔
اسلامی انقلاب کے بعد سے یہ دیکھا گیا ہے کہ سخت گیر عناصر نے تبدیلی پسند وں کی تمام کوششیں عدالتی فیصلوں کے ذریعے ہی ناکام بنوائیں۔ مثال کے طور پر عدالت نے اصلاح پسند عناصر کو قید کی سخت سزائیں اور جرمانے عائد کیے اور اعتدال اور ترقی پسند اخبارات پر پابندی لگا کر کٹر مذہبی عناصر کی پشت پناہی کی۔

مجلس----- پارلیمان
پارلیمان یا مجلس بظاہر اعلیٰ ترین قانون ساز ادارہ ہے۔ اس کے 296 ارکان چار برس کے لیے براہ راست متخب ہوکر آتے ہیں۔ مجلس قانون سازی کے ساتھ ساتھ صدر اور وزراء کے مواخذے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ تاہم خود مجلس کے ارکان شورائے نگہبان کی منظوری کے بغیر انتخاب میں شرکت نہیں کرسکتے۔ جبکہ مجلس کے بنائے ہوئے قوانین شورائے نگہبان کی منظوری کے بغیر غیر موثر رہتے ہیں۔ 2000 میں مجلس میں تبدیلی کے حامی ارکان کی اکثریت ہوگئی تھی۔ لیکن 2004 میں ان کی بساط لپیٹ دی گئی اور شورائے نگہبان نے بہت سے اصلاح پسند ارکان کے انتخابات میں دوبارہ شرکت پر پابندی لگا دی۔

صدر
اور آخر میں رائے دہندگان کے ووٹ سے براہ راست منتخب ہونے والے صدر کا عہدہ آئین کے مطابق بظاہر رہبر اعلیٰ کے بعد دوسرا با اختیار اور طاقتور عہدہ ہے جو تمام حکومتی امور کا سربراہ ہے۔ تاہم صدارتی امیدوار رہبر اعلیٰ اور شورائے نگہبان کی توثیق کے بغیر امیدواری کی سند حاصل نہیں کرسکتا۔ عملاٰ صدر کے خارجہ، ملکی اور سیکورٹی پالیسی ترتیب دینے اور قانون سازی کے زیادہ تر اختیارت اور طاقت کے اصل منبع رہبر اعلیٰ اور شورائے نگہبان استعمال کرتے ہیں اور طاقت کا توازن براہ راست منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں کی بجائے نامزد اداروں کے حق میں ہے۔