بلوچ گلزمین ءِ جارچین

 

 وش آتکے

|

 Download Balochi Font and view Balochi text uniquely 

| گوانک ٹیوب | لبزانک | نبشتانک | سرتاک

|

بحرہ بلوچ خطر ے میں
ق
اضی داد محمد ریحان 2009/06/10

 
Baloch Sea in Peril
سمندر میں گرتا زہر


جیونی ، پشکان،گوادر اور پسنی کے ساحل پر روزانہ لاکھوں لیٹر ڈیزل لایا جاتا ہے ۔ پہلے ڈیز ل درمیانی سائز کی چھوٹی کشتیوں میں لایاجاتاتھا اب اس کے لیے بڑی کشتیاں (لانچ )استعمال کی جارہی ہیں۔ جن میں بیک وقت 400ڈرم ڈیزل )اسی ہزار لیٹر) لانے کی گنجائش ہوتی ہے ۔اس گنجائش کوبڑھانے کے لیے ایک خاص قسم کے ائر بیگزکا استعمال کیاجارہاہے جو عموماً حادثاتی طور پر کم گہرے پانی میں پھنسے ہوئے جہازوں کو سطح پر اٹھانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔یہ ائر بیگز جن میں ڈیزل بھر اجاتا ہے کافی زیادہ گنجائش کی ہوتی ہیں اور کشتی کی ٹینکیاں رکھنے کی مخصوص جگہ کے علاوہ کسی بے ہنگم جگہ بھی رکھی جاسکتی ہیں جتنا ان میں ڈیزل بھرا جاتا ہے یہ اتنا ہی پھیلتے جاتے ہیں اور پارے کی طرح اس جگہ کے کونے کونے تک اپنے لیے جگہ بنالیتی ہیں ۔یہ ڈیزل ایران کے زیر انتظام مغربی بلوچستان کے بندرگاہوں بندرعباس ، چابہار، کنارک ،بریس،پسابندن اوردیگر چھوٹی بندرگاہوں سے لوڈ کیے جاتے ہیں ۔جس کے عوض وہاں کے مقامی انتظامیہ کوبھاری رشوت اداکی جاتی ہے۔وہاں یہ ڈیزل فی ڈرم (200لیٹر) ماہی گیروں کے لیے مخصوص رعایتی نرخ جوکہ پاکستانی روپیوں میں 1800 روپے بنتے ہیں میں خرید اجاتاہے جب کہ یہاں ایک ڈرم 9,000روپے میں فروخت کیاجاتاہے ۔اخراجات نکال کر ہر ایک ڈرم پر 1500روپے کافائدہ حاصل کیاجاتاہے اس تناسب سے ہر 100ڈرم پر 150,000(ایک لاکھ پچاس ہزار ) روپے کا منافع حاصل کیا جارہاہے۔ سمندر میں مچھلیوںکی کمی ہے اور ان سے حاصل کردہ آمدنی ہوائی روزی کہلاتی ہے یہ ضروری نہیں کہ شکاری کشتیاں ہر بار فائدہ میں ہوں بلکہ ٹرالنگ کی وجہ سے سمندر میں مچھلیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر شکار ہوبھی تواس سخت محنت کے مقابلے میں نسبتاً کم محنت اور و قت میں یہ منافع کافی زیادہ اور للچانے والا ہے ۔اس لیے اس کاروبار نے نہ صرف پیسوں کی ریل پیل کر دی ہے بلکہ اس کاروبار سے منسلک لوگوں میں لاپرواہی اور گھمنڈ بھی پیدا ہوگیا ہے۔اس بات کی قطعاً پروانہیں جا رہی کہ کتنا تیل سمندر میںگررہاہے کیوں کہ جتنی جلدی ان کی کشتی کی ان لوڈنگ کی جائے گی وہ اتنی ہی جلدی فارغ ہوسکیں ۔ یہاں جولوگ تیل خرید رہے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ڈرم میں زیادہ سے زیادہ ڈیزل بھریں۔ اُن کے پاس ڈیزل بھرنے کا ڈرمز کے علاوہ کوئی پیمانہ نہیںجن کی گنجائش 200لیٹر ہوتی ہے لیکن ان میں 225لیٹر ڈیزل بھر اجاتاہے جس کے نتیجے میں تیل چھلک کر سمندر میں گرجاتے ہیں ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف گوادر فش ہار بر روزانہ 30,000ڈرم ڈیزل لایا جاتا تھا ۔ماہی گیر الزام عائد کرتے ہیں کہ اس دھندے میں صرف محکمہ کسٹم کو روزانہ 12لاکھ بھتہ ادا کیا جاتاتھا جب کہ کوسٹ گارڈ بھی اتنے ہی رقم الگ سے وصول کرتی تھی ۔جب کہ فش ہاربر اوسطاً ایک لاکھ پچاس ہزارروپے روزانہ کے حساب سے وصول کرتا تھا۔ پولیس ، محکمہ فشریز اور دیگر متعلقہ ادار ے اپنابھتہ الگ سے وصول کرتے تھے۔ حرام کی کمائی کے ان روپیوں نے تمام سرکاری اداروں اور مافیا کو بے لگام بنا دیا۔ان کی لاپرواہی سے ماہی گیری کے لیے قائم آکشن ہال ڈیزل ڈپو بن کے رہ گیا ہے ۔ محتاط ترین اندازہ لگایاگیاہے کہ روزانہ صرف گوادر فش ہاربر میں دوہزار لیٹر ڈیزل سمندر برد ہوتاتھا(ماہی گیروں کی شدید احتجاج کے بعد گوادر فش ہاربر پر اب ڈیزل پہلے کی نسبت کم اور متعلقہ اداروں کی ملی بھگت سے چوری چھپے لایا جارہاہے ۔) ۔سمندر میں گرنے والایہ ڈیزل نہ صرف سمندری حیات کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ماہی گیروں ، سمندر میں نہانے والوں اور متاثرہ مچھلیوں کو استعمال کرنے والوں کے لیے بھی شدید خطرات جنم لی چکی ہیں ۔

ٹرالنگ کیا ہے؟

ٹرالنگ کو کچھ لوگ اپنا ذریعہ معاش سمجھتے ہیں لیکن یہ حقیت میں لاکھوں لوگوں کے معاشی قتل کا باعث ہے ۔ٹرالرنگ سمندر میں مچھلی کے شکار کا ایک طریقہ ہے جس میں مچھلی پکڑنے کے لیے چھوٹے خانوں والے جالوں کا استعمال کیاجاتاہے ۔پہلے جو جال بنائے جاتے تھے ان کے خانے بڑے ہوتے تھے تاکہ چھوٹی ، نابالغ اور نوعمر مچھلیاں جال میں نہ پھنسیں ۔یہ جال ایسے ہوتے تھے کہ ان میں کچھوے اور ڈولفن جیسے دوسرے سمندری جانور بھی بہت کم پھنستے تھے ۔ٹرالر جو جال استعمال کرتے ہیں ان کے خانے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور ان میں مصنوعی ریشہ یاڈوری استعمال کی جاتی ہے جواس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ ان جالوں سے کوئی چیزنہیں نکل سکتی یہ جال 50میل یااس سے بھی زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔جس میں چھوٹی مچھلیاں اور اُن کے انڈے تک بھی پھنس جاتی ہیںجن کاشکار سمندری حیات کی نسل کشی کا باعث بن رہاہے ۔کیوں کہ جس طرح کھیت میں بیج کے بغیر بویائی نہیں ہوتی اسی طرح بغیر انڈوںکے سمندر میں مچھلیوں کی نشونما کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔جو چھوٹی مچھلیاںٹرالنگ میں استعمال میں ہونے والے گجہ وار نٹ کے ذریعے پکڑی جاتی ہیں ان کو اگر صحیح طور پر نشونماکا موقع دیاجائے تو ان میںسے ایک کلو پچاس ہزار ٹن تک نشونماپاتی ہیں ۔اس کامطلب ان کا اس سائز میں شکار معاشی لحاظ سے بھی گھاٹے کاسوداہے ۔یہ چھوٹی مچھلیاں جنہیں اتنی بڑی تعداد میں شکار کی جاتی ہیں د یو ہیکل وہیل مچھلی جیسی مچھلیوں کا بھی خورا ک ہیں جن کے نہ ہونے سے اُن کے لیے بھی خوراک کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔یعنی یہ عمل پورے سمندر کے ا یکوسسٹم کوتباہ کر نے کا باعث بن رہا ہے ۔دنیا بھر میں گجہ وا نٹ کو ممنوع قر ار دے کر اس کے استعمال پر پابندی لگادی گئی ہے ۔بلوچستان فشریزایکٹ کے تحت بھی ساحل سمندر میں بارہ نارٹیکل میل کے اندر ٹرالنگ پر پابندی ہے جنہیں نظر انداز کرتے ہوئے ٹرالر نہ صرف ساحل کے قریب آجاتے ہیں بلکہ اپنے اس عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے والے مقامی ماہی گیروں کے ساتھ سخت رویہ اختیارکرتے ہیں ۔ اُ ن کے سمندر میں ڈالے گئے جالوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ماہی گیروں کی طرف سے احتجاج پر اُن پر فائرنگ کے واقعات بھی ہوچکے ہیں ۔1999ءکوپسنی میں جُماعت اور باقی نامی دوماہی گیروں کو ٹرالر والوں قتل کر کے اُن کی لاشیں اُن کی کشتیوں میں پھینک دی تھیں جوکہ باپ بیٹے تھے ۔ان ٹرالر زکے مالک غیر بلوچ اور زیادہ تر ریٹائرڈ فوجی افسران ہیں ۔اس عمل کی سر پرستی کرنے پر محکمہ فشریز ، مافیا اور پولیس جیسے قانون نافذ کرنے والے ادارے سالانہ کروڑوں روپے بھتہ وصول کرتے ہیں جن سے ٹرالنگ سے حاصل ہونے والی اصل کمائی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔غیر مصدقہ ذرائع سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ ان ریٹائرڈ فوجی افسران کو ٹرالر خریدنے کا ریاستی اداروں کی طرف سے مشورہ دیاگیاتھا ۔

آلودہ سمند ر میں پھلتا استحصالی آکٹوپس

اس حقیت کے ساتھ یہ با ت بھی تاریخی سچائی ہے کہ بلوچ نے اپنی کمزور ترین پوزیشن کے باوجود اپنی اس خوبصورت بیٹی یعنی بحرہ بلوچ پر دشمن کی قبضہ گیریت کواپنی بھر پور طاقت کے ساتھ چیلنج کیا اور شکست دینے میں کامیاب رہاہے ۔ ھمل جیھند کا پر تگیز حملہ گیروں کے خلاف جنگ کے نتائج آپ کی سفاکانہ شہادت کے باوجود بلوچ قوم کے فتح کی صورت نکلے ۔ماضی کی جنگوں میں عسکری قوت کو اولیت حاصل تھی ھمل جیھند کا زمانہ زرخیز خطوں پر بزور طاقت قبضہ گیر ی کا گرم دور تھا ہر چار سو قومیں وسائل پر قبضے کے لیے آپس میں رسہ کشی کرر ہیں تھیں ۔گردش دوراں میں کئی اقوام شکست وریخت سے دوچار ہوئیں کئی خطوں میں جنگیں ختم ہوگئیں۔ بڑے بڑے سورما کی سلطنتیں اُن کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں تک سکڑ گئیں لیکن اُن کی اس شکست سے اُن کے اطمینان بخش زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو اجس میں انہوںنے اپنے لیے نئے منازل اور نئے مقاصد کا تعین کیا ۔وہاں علم واد ب اور مدنیت میں اصلاحی عمل نے انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں ۔اب یہ خوبصورت سوچ نکھر کر سامنے آرہی ہے کہ امن کے لیے تمام اقوام کا ایک ہی ریاستی بندوبست کے تحت ہونا ضروری نہیں بلکہ یہ انسان کے حاصل کردہ وسیع مشاہدات علم البیان او ر طرزاظہار کو ضائع کرنے کے مترادف ہے امن کے لیے باہمی احترام ، مساوات اور رواداری کے ساتھ ساتھ ہر چھوٹی چھوٹی بڑی قوم کی حق آزادی کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے ۔مگر بلوچستان بھی مشرق وسطیٰ کے اُن نحوست زدہ خطوں میں سے ایک ہے جہاں اب تک نوآبادیاتی دور کے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں اقوام متحدہ کی طرف سے نوآبادیاتی پالیسیوں کو مسترد کرنے کے باوجود یہاں وہی چلن چل رہے ہیں جنہیں نو آبادیاتی دور میں قانون کا درجہ حاصل تھا۔پاکستا ن کا زیر انتظام بلوچستان ہو یا ایران کے زیر انتظام، بلوچو ں کے ساتھ ہر دو ریاستوں کا رویہ ظالمانہ ہے فرق صرف یہ ہے کہ پہلے نوآبادیاں قائم کرنے والے ممالک اس بات کا برملا اظہار کرتے تھے کہ ”فلاں ممالک ہماری نوآبادی ہے “اب ان نوآبادیوں کو ”استان “اور صوبہ کہا جاتاہے ۔استحصال کا یہ عمل ھشت پانچ ( آکٹوپس ) کی طرح کثیر الجہتی ہے ۔بلوچستا ن پر قابض قوت محض عسکری طاقت کے ذریعے بلوچ قوم کی نسل کشی کررہی ہیں بلکہ اقتصادی ، سماجی او ر سیاسی محاذ پر اسے خاتمے کی طرف دھکیلنے کے لیے پورا زور لگایا جارہاہے ۔بظاہر سمندر کو آلودہ کرنے کا عمل پاکستان کی لا پرواہ تہذیبی چلن سے مطابقت رکھنے والی لاپرواہی معلوم ہوتی ہے لیکن یہ محض جرم نہیں ایک سازش ہے جو سمندر کے ساتھ نہیں ایک قو م کے ساتھ ہورہی ہے جسے بلوچ کہتے ہیں ہمیں اس کے محرکات کا گہرائی سے مشاہدہ کرنا ہوگا ۔ ۔

مسئلے کی قومی نوعیت

بلوچ قوم پر لشکر کشی کے ساتھ ثقافتی ، معاشی ، سیاسی اور سماجی حملے بھی کیے جارہے ہیں ہمیں چالاک اور بے رحم دشمن کاہر محاذپرمقابلہ کرناہے۔ بحر بلوچ کے ساحل کو ٹرالنگ ، ڈیزل کے کاروبار ، صنعت کاری اورشپ بریکنگ یار ڈ تعمیرکر کے بانجھ بنانے کی سازش کامقصد بلوچ ساحل سے لوگوں کو بے دخل کر کے اس پر قبضے کی راہ ہموار کرنا ہے ۔بحر بلوچ کے تحفظ کی جنگ ماہی گیروں کی نہیں پوری بلوچ قوم کی ہے جسے متحد ہوکر لڑیں گے ۔بی این ایم بحر بلوچ کے تحفظ کے لیے مقامی ماہی گیر تنظیم کے خاموش رہنے کی صورت بھی کردار ادا کرتے رہے گی ۔ پنجابی اپنی عسکری اور عددی طاقت کے گھمنڈ میں بلوچوں کو بد مست ہاتھی کی طرح پاﺅں تلے روند ھ کر اپنے گھناﺅنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ان کی خواہش ہے کہ وہ بلوچ سماج کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزار کر کمزو ر کر دیں ۔ وہ ماہی گیروں کے لیے جداگانہ مسائل پید اکر کے انہیں بلوچ قومی مسئلے سے بیگانہ کرنا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں کیوں کہ بلوچ کے ہر طبقے کا مسئلہ مشترک اور قومی غلامی سے جڑ اہے ۔بلوچ ماہی گیر وں نے غلامانہ زندگی سے چھٹکارے کے لیے ہمیشہ بلوچ قوم دوست طاقتوں کا ساتھ دیاہے اُن کے معاملے پر بھی ڈیرہ بگٹی سے لے کر مندتک بلوچ متحدہیں اور جانتے ہیں کہ بحر بلوچ کے تحفظ کا معاملہ علاقائی نہیں قومی ہے ۔ماحولیاتی تحفظ کے لیے بین الاقوامی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچ ساحل کو دانستہ آلودہ بنانے کی سازش کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے دنیا کے ایک بڑے حصے کے خوراک کی ضرورت کو پورا کرنے والی اس بڑی ماہی گیر کے پیشے کو تباہی سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں ۔عالمی سامراج کی نظریں گزشتہ کئی صدیوں سے بحرہ بلوچ کے ساحل پر لگی ہیں جوکہ اسے ہتھیانے چاہتے ہیں ۔اُن کے لیے گرم پانی کا یہ سمندر ایک بہترین تجارتی گزرگاہ اور بلوچستان کے وسائل کو لوٹ کر لے جانے کے لیے محفوظ راستہ ہے ۔بلوچستان کے ساحل کو جیونی سے لے کر گڈانی تک باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت آلودہ کیا جارہاہے ۔بحرہ بلوچ کا ساحل ٹرالنگ کے ذریعے آبی حیات کی بے دریغ نسل کشی کے باوجود ماہی گیری کی ایک اہم خطہ ہے جہاں سالانہ کھربوں روپے کما ئے جاتے ہیں ۔ماضی میں ساحل کے لوگ بلوچستان کے امیر ترین لوگوں میں شمارہوتے تھے جوقابض سر کارکے دشمنانہ رویے کی وجہ سے آج کھانے کو محتاج ہیں ۔ مغربی اور مشرقی بلوچستا ن کے ماہی گیر پیشے سے وابستہ سر مایہ داروں نے اس پیشے کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے بڑی کشتیاں تعمیر کی ہیں جن میں مچھلیوں کو اسٹور کر نے کے لیے جدید آئس بکس اور دیگر شکار کے آلات لگائے گئے ہیں جو پاکستان کے قابض فورسز کی طرف سے غیر مقامی ٹرالنگ کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے اپنے اخراجات بھی پورے نہیں کر پارہے اوربڑی تعداد میں دیوالیہ ہورہے ہیں ۔اگر ٹرالرنگ او ر ساحل کو آلودہ کر نے کے دیگر عمل کو نہیں روکے گئے تو پورے مغربی بلوچستان سمیت مشرقی بلوچستان کے ساحلی علاقے میں آباد بائیس لاکھ بلوچ شدید قحط سالی کا شکار ہوں گے جوایک انسانی بحران کاباعث بن سکتا ہے۔
عصاء ظفر ۔قائمقام صدر بلوچ نیشنل موومنٹ

کیا مچھلیاں فیکٹریو ں میں بنتی ہیں ؟

مچھلیاں فیکٹریوں میں نہیں بنتی اس لیے ہم ماہی گیری کو صنعت نہیں کہہ سکتے یہ شکار کرنے کا ایک عمل ہے ۔جوبے قابو شکار سے ناپید ہوسکتا ہے اسے متوازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے جاہلانہ سوچ سے نکل کرافزائش نسل کے اُن فطری قوانین کو سمجھیں جن کے تحت اگر کسی جاندار کی افزائش نسل روکی جائے توو ہ ناپید ہوجاتی ہے ۔اگر مچھلیوں کے شکار کے معاملے میں ہم نے اپنے طریقے نہ بدلے تویقین مانئے کہ ہم ان مچھلیوں کو دوبارہ فیکٹر یوں میں نہیں بنا پائیں
سرحدیں مچھلیوں کے لیے نہیں ہوتیں

جیونی سے لے گڈانی تک750کلومیٹر طویل ساحل کو پاکستانی ریاست کی مجرمانہ ہتھکنڈوں کی وجہ سے شدید قسم کے ماحولیاتی خطرات لاحق ہیں اور سمندری حیات کی ٹرالنگ کے ذریعے بے دریغ نسل کشی کی جارہی ہے سمندری حیات کی نسل کشی کے اثرات برائے راست اس خطے میں آبادبائیس لاکھ بلوچوں پر پڑرہے ہیں جو ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں ان میں دس لاکھ کے لگ بھگ وہ بلوچ بھی شامل ہیں جوکہ ایران کے زیر انتظام مغربی بلوچستان میں آباد ہیں ۔اس طرح یہ مسئلہ محض ایک ریاست کانہیں بلکہ ایک بین الاقوامی معاملہ ہے ۔کیوں کہ سمندری حیات پر نقل وحرکت کی کسی قسم کی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں انسانوں کی کھینچی ہوئی وہ جبر ی حد بندیاں بھی نہیں روک پاتیں جنہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان وایران اپنی سر حدیں مانتے ہیں ۔یعنی ٹرا لنگ کایہ عمل جن سمندری حیات کی نسل کشی کا سبب ہیں ایران کے زیر انتظام بلوچ مید ( ماہی گیر ) بھی ان ہی کا شکارکرتے ہیں ۔ٹرالنگ کے تدارک نہ ہونے کی وجہ سے مچھلی کی شکار میں سالانہ 20سے 25فیصد کمی واقع ہورہی ہے جواس خطرے کی طرف اشار ہ کرتاہے کہ اگر اسے نہیں روکا گیاتو بائیس لاکھ بلوچ قحظ سالی کا شکا ر ہوں گے یاپھر اپنے ذریعہ معاش تبدیل کرنے پر مجبور ہوں گے جس سے افلاس اور غربت میں اضافہ ہوگا کیوں کہ ان علاقوں میں ماہی گیری کی
پیشے کے علاوہ روزگار کے متبادل ذرائع ناپید ہیں ۔

گڈانی شپ بریکنگ یارڈمیں اپنی تباہی پر جشن مناتے مزدور

جب بھی گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں کوئی پرانا جہاز ٹوٹنے کے لیے لنگر انداز ہوتا ہے ۔پاکستان کامٹھو میڈیاشروع مچانے لگتاہے کہ گڈانی میںٹوٹنے کے لیے ایک اور جہاز لنگر انداز ہوگیاہے مزدور وں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔اب گڈانی کی قسمت بدلے گی علاقے کی رونقیں بحال ہوں گی ہزاروں مزدروں کی قسمت چمک اٹھی ہے وغیرہ وغیرہ ۔لیکن کیا ان کے علم میں یہ بات بھی ہے کہ دنیاکے دوسرے ممالک کے ساحل پر شپ بریکنگ یارڈکی تعمیر کی اجازت نہیں یہ کام اس لاپرواہی اور ماحولیاتی آلودگی کی پرواہ کیے بغیر صرف بلوچستان کے ساحل گڈانی میں کیا جاتاہے ۔یہاں ٹوٹنے کے لیے آنے والے جہاز کیمیکل کارگو، آئل کار گو کے لیے استعمال ہونے والے پرانے جہاز ہوتے ہیں ۔ان کے ٹوٹنے سے نہ صرف ان میں استعمال کیا ہوا مواد سمندر میں گر گر آلودگی کا سبب بن رہاہے بلکہ کبھی کبھار ان سے خطرناک کیمیاوی مواد کا سمندر میں گرنے کا خطرہ ہوتاہے جولاپرواہی کے باعث ان جہازوں کے ٹینکیوں اور دوسری جگہوں پر رہ جاتے ہیں ۔جس طرح سمندر میں گر نے والاڈیزل آبی حیات کے لیے نقصان دہ ہے اسی طرح ٹوٹنے والے جہازوں سے سمندر میں گرنے والے اجزاءبھی سمندری آلودگی کا باعث ہے ۔یہ آلودگی اس ساحل پر موجود ہزاروں آبی حیوانات کے علاوہ ڈولفن کے نایاب نسل کے لیے بھی اتنہائی خطرناک ہے۔ جسے آلودہ سمندر میں سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا ہوتا ہے ۔

سرور اور کرب کا احساس

میں نے ایک فطری سرور محسوس کیا ، جب سمند ر کی طرف دیکھا میں نے کہااَخ آہ............................جواس سمندر کا مالک
ہواس کوکھانانہیں ملتا، اُس کی صحت اچھی نہیں اور پھر بھی فرہنگی کا غلام کہتاہے کہ میں سمندر پر قبضہ کرلوں گا ۔اب ا گراس پر قبضہ کیا تو یہ ہماری موت ہے ۔( شہید لالہ منیریکم اپریل2009۔گوادر

سمند کو نگلنے والے شکاری بیڑے

بڑے اور صنعتی پیمانے پر ماہی گیری کاآغاز 1950ءکے عشرے میں ہوا ۔پچاس برس کے اندر سمندروں میں موجود بحری حیات
کی تجارتی طور پر مقبول اور مشہور اقسام میں سے تقریباً90فیصد ختم ہوگئی ۔ان میں ٹونا ، کوڈ ، سوارڈ فش ، ہیل بٹ ، مارلین ، شارک او ر سالمن شامل ہیں ۔جب ایک ماہی گیر بیڑا مچھلی کی کسی خاص قسم کونشانہ بناتے ہیں تو صرف 15سال میں ان کی تعداد 80فیصد کم ہوجاتی ہے ۔ترقی یافتہ ملکوں کے ماہی گیر جہازوں کے بیڑوںنے پہلے اپنے ہی ملکوں کے ساحلوں سے اس مچھلی کا صفایاکیا جو تجارتی مقاصد میں استعمال ہوتی ہے ۔چنانچہ آج شمال کے ملکوںکے سمندر مچھلیوں سے خالی ہیں ۔بالخصوص کینڈا، یورپ اور جاپان کے سمندری علاقے اس کے بعد انہوںنے کھلے سمندروں کو رخ کیاجو کہ بین الاقوامی ملکیت ہیں اور کسی ملک سے تعلق نہیں رکھتے جہاں مچھلیوں کی اکثر اقسام بلوغت کے بعد اپنی زندگی گزارتی ہیں ۔مادہ مچھلیاں جوایک خاص موسم میں ساحلوںمیں مونگے کے چٹانوں والے علاقوںمیں انڈتے دیتی ہیں انہیں شکا ر کر لیاجاتاہے ۔سمندر کے اس حصے کو کنگالنے کے بعد اب یہ ہمارے ساحل کا رخ کر رہے ہیںسرکار جنہوںنے بلوچ ملکیت کواونے پونے داموں بیج کر اپنا خزانہ بھرتارہا ہے ا ن کو خوش آمدید کہہ رہاہے ۔اس میں پاکستانی مقتدرہ کو حاصل ہونے والا فائدہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے کیوں کہ یہ جہاز بڑی تعداد میں شکار کرتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب مچھلیاں بر آمد کردی جاتی ہیں اور ان سے حاصل ہونے والازر مبادلہ ان علاقوں کی ترقی او ر مقامی بلوچ ماہی گیروں کے بہبود کے لیے استعمال نہیں کیے جاتے ۔یہ سب ماہی گیروں اور یہاں آبا د بلوچوں کی مرضی کے بغیر ہورہاہے جن کی زندگی کا دار ومدار اس علاقے پر ہے ۔زیادہ تر سمندری حیات 30سے 40میل کی حدود میں پھلتی پھولتی ہے جہاں اب بحری بیڑے شکار کررہے ہیں ۔ان کو دی جانے والے اجازت نامے کی فیس بھی قابل ذکر نہیں ۔جتنی بڑی تعداد میں یہ بدیسی جہاز شکار کرتے ہیں اس کی قیمت کے مقابلے میں اجازت نامے کی فیس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ۔یہ خاص سمندری حدود کی پابندی بھی نہیں کرتے اور ان کی نقل وحرکت پر قابوپانابھی ممکن نہیں ۔مقامی آبادی پہلے سے ہی پسماندہ اور محروم ہے اور بہت زیادہ شکار نے مچھلیوں کی مختلف نسلوں کے خاتمے کی رفتار تیزکردی ہے ۔بحر ہ بلوچ سے حاصل ہونے والی مچھلیوں کی برآمدات سے پاکستان کو حاصل ہونے والا زر مبادلہ 10کروڑ سے 20کروڑ دالرز کے درمیان رہاہے ۔اب مقتدرہ سوچ رہی ہے کہ ہرسال ایک ارب ڈالر کی مچھلی شکار کی جائے ۔جس سے سمندر میں بالغ مچھلیوں کی اتنی تعداد باقی نہیں رہیں گی کہ وہ اپنی آبادی میں اضافہ کرسکیں ۔یہ کاشتکاری نہیں جس میں دوبارہ زمین کاشت ک جاسکتی ہے ۔اس منصوبے پر عملدآمد سے 22لاکھ بلوچ ماہی گیرمعاشی مہاجرین بن جائیں گے جن کے رو زگار کے حقوق ”سرکاری “طور پر چھین لیے گئے اور جو متبادل طرزندگی نہیں جانتے ان کے بارے میں پاکستانی مقتدرہ کا رویہ استبدادی ، من پسند ، پر تکبر اور صرف حکمرانوں اور مفادات رکھنے والوں کے حق میں ہے ۔ان کو اس بات سے کوئی غرض کہ نہیں اس سے پیچھے صرف تباہی رہ جائے گی ۔

ہم بھی مجرم ہیں

بحر ہ بلوچ کو اُجاڑنے میں میں سب سے زیادہ ہاتھ غیر ملکیوں اور قابض حکمرانوں کا ہے لیکن ہم بھی اس جرم میں شامل ہیں۔ہماراسب سے بڑاجرم ”جرم ضعیفی “ہے ۔ہم نے ہر معاملے پر اپنی کمزوری دکھاکراستحصالی قوتوں کو اعتماد بخشا ہے ، مزاحمت اور انکار کی روش کو غداری اور جرم جاناہے حالانکہ اپنی گلزمین سے وفاداری کا یہی تقاضاہے کہ ہم اس کی رکھوالی کے لیے کمربستہ ہوں ۔اس کے علاوہ ہم بلوچ ماہی گیروںنے بھی مقامی طور پر بے قابوطرز ماہی گیر ی کی نقل کرنے کی کوشش کی جب سر مایہ داروںنے ماہی گیری کو صنعت قرار دے کر ہماری شکار کی قیمت بڑھادی توہم نے اپنے بھوک کے لیے مچھلی پکڑنے کی بجائے دوسروں کی لالچ کے لیے شکار کرنا شروع کردیا ۔پلاسٹک کے جال استعمال کرنے لگے اور گِرّ(جس میں چھوٹے خانوں والے جال کو ساحل سے بمشکل تین میل دور پھینک کر زمین پر گھسیٹتے ہوئے کھینچا جاتا ہے جس میں ساحل کی مٹی اور مچھلیوں کے انڈے تک اس میں پھنس جاتے ہیں )کیاجانے لگا۔اس سے ہماری بھوک مٹی اور نہ ہی مفاد پرست ٹولے کی لالچ کم ہوئی لیکن ہمارا سمندر خالی ہوگیا۔مید اتحاداور دیگر ماہی گیر تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر ملکی اور بدیسی ٹرالنگ کے تدارک کے لیے موثر اقدامات کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں کو بھی اس بات پہ راضی کریں کہ وہ مچھلی پکڑنے کے تمام ایسے طریقوں سے پرہیز کریں جس سے سمندری حیات کی نسل کشی ہوتی ہے۔

کیا بحرہ بلوچ کا مقدر بھی یہی ہے؟؟
حد سے زیادہ ماہی گیری اور آلودگی کی وجہ سے سمندروں میں ایسے علاقے پیدا ہورہے اور پھیلتے جارہے ہیں جہاں ایک بھی (Dead Zones)مچھلی اور دوسری سمندری حیات زندہ نہیں ملتی ۔اس وقت تقریباً150ایسے مردار خطے

ہیں جو سینکڑوں یا ہزاروں مربع میل پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ٹھنڈےپانی کے مقابلے میں گرم پانی کم آکسیجن جذب کرتاہے
 اس لیے سمندر کے بعض علاقے قدرتی طور پر کم آکسیجن کے حامل ہوتے ہیں جوکہ عام طور پر سطح سمندر سے سینکڑوں
 Jumbo-Squidفٹ نیچے پائے جاتے ہیں ۔یہ بڑے جھینگوں
کے لیے نہایت پرکشش ہوتے ہیں جو کم آکسیجن والے پانیوں کوبرداشت کرتے ہیںاور یہ شکاری جانوروں سے بچنے کے لیے بہترین جگہ ہیں ۔ان بڑے جھینگوں کی لمبائی 6فٹ تک ہوتی ہے اور یہ بڑی مقدار میں مقامی مچھلی شکار کرتے ہیں۔جب تمام دوسرئی مچھلیاں ختم ہوجاتی ہیں تو غذائی زنجیر کی تہ میں سمندری حیات کے طور پر صرف جیلی فش رہ جاتی ہے لیکن اس کا ذائقہ اچھا نہیں ہوتا۔مردار خطوں کی تعداد بڑھنے کا مطلب ہے کہ ماہی گیری کے لیے ہر بار دور تک جانالیکن ہر بار پہلے کے مقابلے میں کم مچھلی پانا۔یہی سب ہمارے ماہی گیروں کے ساتھ ہورہاہے تواس کا مطلب ہے کہ بحر ہ بلوچ بھی کیاجل پریوں کو سمندر ی بلا نگل گیا؟
ہمارے ساحل کی یہ کہانی اب افسانو ی لگتی ہے لیکن یہ بلکل سچ ہے کہ پرسکون سمندر میں مچھلیوں کے جھنڈ لاکھوں کی تعداد میں ساحل کنارے آتے تھے جن کے شکار کے لیے مچھیرے چھوٹے جال کندھے پر لادھ کر گھٹنوں تک پانی میں جاتے اور جال پھینک کرمچھلیاں پکڑتے تھے ۔ چھوٹے بچے نہاتے ہوئے اپنے قمیض کے دامن کو پانی میں ڈبوکر نکالتے تواس میں مچھلیاں آجاتی تھیں ۔ہماری بچپن میں ایک خاص سیزن میں اسکول کے لڑکے چھٹی کے بعد فش ہار بر( گوادر جی ٹی ) پر بڑی تعداد میں ایک لمبی سانپ نما مچھلی جسے بلوچی میں” چِندھی“ کہتے ہیں کانٹے سے شکار کرتے تھے جس سے انہیں اچھا خاصا جیب خرچ ملتاتھا ۔دودو کی ٹولیوں میں یہ لڑکے روزانہ ہزار سے لے کر دوہزار تک روپے کی مچھلیاں پکڑتے تھے ۔اس شکار میں اُن کے اخراجات بمشکل 25روپے سے زیادہ ہوتے تھے ۔مچھیروں کو ہفتہ وار آمدنی اُس زمانے میں لاکھوں روپے ہوتی تھی لیکن اب تو یہ سب سوچتے ہوئے ایک سہانا خواب لگتاہے اب روزانہ پانچ سے دس ہزار روپے خرچ کر کے سمندر میں جانے والاماہی گیر بھی اکثر خالی ہاتھ لوٹتا ہے ۔یہ سب کچھ اتنی جلدی کیسے بدل گیا سمندر جس کے بارے میں ہمارے بزرگ فخراور اعتماد سے کہتے تھے کہ ” اللہ تعالیٰ نے سمندر کی صورت ہمیں جونعمت عطاءکی ہے یہ کبھی ختم نہیں ہوگی “اتنی جلدی کیسے خالی ہوگیا؟؟...........انسان کی لالچ نے اسے چاٹ لیاہے ۔ہم نے خود سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو ذبح کر لیا ہے ۔یہ سب کچھ ٹرالنگ ، گجہ وار نٹ ،سمندری آلودگی اور مقامی طور پر اختیار کیے جانے والے شکار کے اُن نسل کش طریقوں کی وجہ سے ہوا ہے جنہیں ہم اپنی کمائی بڑھانے کے لیے استعمال کرر ہے ہیں۔پچاس سال سے کم عرصے میں صنعتی ماہی گیری کے بیڑوں نے ان سمندروں کو مچھلیوں سے تقریبا ًخالی کردیاہے جنہوں نے کرہ ارض کے 70فیصد حصے کو گھیر رکھاہے ۔یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اب تو یہ کہانی بھی سچی لگتی ہے کہ کسی زمانے میں سمندر میں جل پریاں ہوا کرتی تھیں جنہیں ایک بہت بڑے سمندری بلا ایک ایک کر کے نگل گیااو ر یوں سمندر کی یہ خوبصورت مخلوق ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ گئی ۔ہوسکتا ہے” جل پریاں“بھی خوبصورت مچھلیاں تھیں جس طرح ” گوکین (ڈولفن )“ہے جسے سمندر ی آلودگی کی بلا نگلنے کو بے تاب ہے ...................اگر یہ سب سچ ہے تو سمندر میں رہنے والی کئی خوبصورت مچھلیاں شدید خطرے میں ہیں۔ آئیے آگے بڑھ کر اُس بلا کو ختم کردیں جوان مچھلیوں کو ہڑپ کرنا چاہتاہے تاکہ یہ مچھلیاں کہانیوں میں نہیں حقیقت میں زندہ رہیں اور ہماری نسل ان کے بارے میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کو دیکھ بھی سکیں ۔
سمندر میں گرنے والے ڈیزل کے طبی نقصانات
ڈیزل سے آلودہ سمندر میں نہانے سے ہونے والی آنکھوں کی بیماری کیمیکل ری ایکشن کہلاتی ہے ۔جہاں پہ ڈیزل گرتاہے وہاں پہ نہانے سے الرجک کن جنکٹی وائیٹز
Allergic Counjunctivitis
نامی بیماری ہوتی جس میں آنکھیں سر خ ہوجاتی ہیں ۔اُن میں کجھلی اور در د ہوتاہے جودوسری بیماریاں جیسا کہ ٹریکوما
Trachoma
کا سبب بنتا ہے ۔اس میں پلکوں میں دانے نکلتے ہیں سوجن ہوتا ہے ۔اس بیماری سے کرنیہ کو نقصان ہوسکتاہے جس سے مریض کی بینائی جانے کا بھی خدشہ ہے ۔آنکھوں کے آگے کیمیکل کی ایک لہر بنتی ہے اور مریض کو دھندلا نظر آنے لگتاہے ۔ہمار ے پاس آنے والے 10%فیصد مریضوں میں یہ بیماریاں پائی جارہی ہیں جن میں سوفیصد وہی لوگ ہیں جو آلودہ سمندر میں کام کرنے او ر نہانے سے متاثر ہوئے ہیں ۔لوگوں کو اھتیاطی تدابیر کے طور پر فش ہاربر اور اس کے اطرا ف کے پانی میں نہانے سے گریزکرنا چاہئے ۔جولوگ سمندر میں کام کرتے ہیں اُن کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھیں دن میں پانچ مرتبہ ٹھنڈے پانی سے دھولیں ۔ڈیزل سے آلودہ سمندر میں نہانے سے جلد کی متعدد بیماریاں ہوسکتی ہیں جیسے کہ ایگزیماجسے بلوچی میں گدرین کہاجاتاہے اس کے علاج کے بعد اگر دوبارہ اسی آلودہ پانی میں نہایا جائے تو یہ بیماری دوبارہ پیدا ہوتی ہے ۔الرجک ڈرماٹائٹس ہوسکتا ہے جس میں جسم اور چہرے پر بد نما دھبے دھبے پڑتے ہیں جسے فنگس(گلاک ) کہا جاتاہے ۔خارش کی بیماری ہوتی ہے جوکہ ایک متعددی بیماری ہے ایک آدمی کو لگنے سے پوری فیملی کو متاثر کرتی ہے ۔ڈیزل اور دیگر کیمیکل دراصل جلد کے کرائیٹن لہر کو متاثر کرتے ہیں جوکہ جلد کی پہلی لہرہے جو کہ اسے بیرونی اثرات سے تحفظ فراہم کرتی ہے اس کے کمزور ہونے کی صورت جلد کے دیگر لہروں کو نقصان ہونے کا اندیشہ رہتاہے ۔سویٹ پور بند ہوجاتے ہیں ۔جلد کی چمک ختم ہوجاتی ہے اس میں جھریاں پڑتی ہیں ۔رینکل بنتے ہیں اور جلدکی سی بم لہرمتاثر ہوتی ہے ۔جلد کی نشونما متاثر ہوجانے سے جلد کی زندگی کے اثرات ماند پڑجاتے ہیں ۔ڈیزل سے آلودہ پانی میں جانے والوں کو چاہئے کہ وہ صاف پانی سے صابن کے ساتھ اچھی طرح نہا لیں اور موسم سرمامیں نہانے کے بعد جلد پر تیل لگائیں اس صورت ان بیماریوں کے اثرات کم سے کم ہوں گے ۔یاد رہے کہ بیماریاں فوری طور پر اثر نہیں کرتیں بلکہ ہفتے بھر میں ان کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں ۔ایگزیما، خارش او ر دیگر جلد امراض کی صورت مریض ناخن کاٹ لیں اور خار ش ہونے کی صورت ناخن کی بجائے ہتھیلیاں استعمال کریں او ر فوری طور پر متعلقہ ڈاکٹرز سے رجوع کریں ۔اس کے علاوہ سانس اور گلے کی بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں ۔جوڈیزل سمندر میں گرتاہے اس سے مچھلیوں کو بھی کئی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں یہ بیماریاں چھوٹی مچھلیوں سے بڑی مچھلیوں میں منتقل ہوتی ہیں جس سے سمندر کے پورے حیاتیاتی نظام (ایکو سسٹم )
کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ ان متاثرہ مچھلیوں کے گوشت کے استعمال سے معدے کی بیماریوں کا بھی خطرہ موجود ہے ۔ڈاکٹر عبدالکریم ، ماہر امراض چشم اور جلد ، ماری ایڈی لیڈ لپروسی سینٹر گوادر 
غریب کی خوبصورت بیٹی
بلوچی میں ضرب المثل ہے کہ خداغریب کو خوبصورت بیٹی بھی نہ دے غریب بلوچ کی خوبصورت بیٹی اُس کا ساحل ہے جس کے حسن پر ہر دور میں عالمی طاقتوں کی نظر رہی ہے ۔ کچکول ایڈوکیٹ

 

 دشمن مافیا کے نرغے میں ہے
قاضی داد محمد ریحان