|
|
بلوچ گلزمین ءِ جارچین |
|
وش آتکے |
| |
| | گوانک ٹیوب | | | لبزانک | | | نبشتانک | | | سرتاک |
| |
Wednesday, June 25, 2008
Friday, June, 2008, 07:20 GMT 12:20 PST الطاف حسین زمین کی منتقلی پر ہنگامہ کیوں؟وادی کشمیر کے ہمالیائی پہاڑوں میں چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع بھگوان شیو کے مندر میں ہر سال بھارت کی مختلف ریاستوں سے آئے عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے ۔ مقامی مسلمان یاتریوں کو مختلف سہولتیں اور خدمات بہم پہنچانے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ آٹھ سال قبل حکومت نے قانون ساز اسمبلی میں ایک بل پاس کرواکے امرناتھ شرائن بورڈ کا قیام عمل میں لایا جسے یاتریوں کو سہولتیں فراہم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ جب ایوانِ اسمبلی میں یہ بل لایا گیا تو ماحولیات کے کارکنوں نے اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا۔ لیکن شرائن بورڈ کے قیام پر نہ ماحولیاتی حلقوں نے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے اعتراض اٹھایا۔ مگر پانچ سال قبل بھارتی فوج کے سابق نائب سربراہ ریٹائرڈ لیفٹنٹ جنرل ایس کے سنہا کے گورنر مقرر ہونے کے فوراً بعد شرائن بورڈ تنازعات میں گھِر گیا۔ جنرل سنہا نے یاترا
کی معیاد ایک ماہ سے بڑھا کر دو ماہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اُس وقت کے وزیر
اعلیٰ مفتی محمد سعید نے اس کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ یاترا کے دوران
انتظامیہ کا پورا دھیان اسی پر مرکوز رہتا ہے اور روز مرہ کے انتظامی
معاملات نظر انداز ہو جاتے ہیں۔
گویا گورنر سنہا نے ویشنو دیوی اور امرناتھ شرائن بورڈ کی خود مختاری کا اعلان کردیا۔ اس سے سیاسی حلقوں اور عام لوگوں میں یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ گورنر سنہا شرائن بورڈ کے نام پر ایک متوازی حکومت چلانا چاہتے ہیں۔ اسی پسِ منظر میں یہ خبر آئی کہ گورنر نے امرناتھ یاترا کے راستے میں زائرین کے لیے قیام و طعام کی سہولیات اور بیت الخلاءتعمیر کرنے کے لیے حکومت سے شرائن بورڈ کو جنگلات کی زمین منتقل کرنے کے لیے کہا ہے۔ اس پر ماحولیات کے کارکنوں نے تشویش ظاہر کی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی کہ گورنر نے حکومت کو امرناتھ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی قائم کرکے پہلگام سے بال تل تک کا علاقہ اس کے انتظامی کنٹرول میں دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ چنانچہ کشمیری عوام
، سیاسی رہنماووں اور دانشوروں کے خدشات اور بڑھ گئے۔ انہیں دال میں کچھ
کالا نظر آنے لگا۔
ماحولیات کے کارکنوں نے اسے ماحول کی تباہی کا سامان بتایا لیکن عام لوگوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ یہ ’ کشمیر میں غیر کشمیری ہندؤوں کو بسا کر یہاں کے مسلم اکثریتی کردار کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان خدشات کو خود ان وزراءنے بھی تقویت پہنچائی جنہوں نے کابینہ میں زمین کی منتقلی کے فیصلے پر اپنی رضامندی ظاہر کی تھی۔ ان وزراءنے عام لوگوں کے سامنے اس فیصلے کو غلط بتایا ۔ نائب وزیر اعلیٰ مظفر حسین بیگ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اُنہیں اور کابینہ میں ان کے ہم خیال ساتھیوں کو کانگریس پارٹی سے وابستہ ہندو وزراءنے یہ کہہ کر دباؤ میں لایا کہ اگر شرائن بورڈ کو زمین مہیا نہ کی گئی تو وہ مغل روڈ پروجیکٹ کے لیے بھی زمین منتقل کرنے نہیں دیں گے۔ (واضح رہے مغل روڈ وادی کشمیر کو جموں خطے کے مسلم اکثریتی اضلاع سے جوڑتا ہے)۔ مظفر حسین بیگ کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آج بھی شرائن بورڈ کو زمین کی منتقلی سے متعلق کابینہ کے فیصلے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ حزبِ اختلاف کی
جماعت نیشنل کانفرنس نے بھی زمین کی منتقلی کو ایک غلط فیصلہ قرار دے کر
اسے رد کرنے کی مانگ کی ہے۔
جموں و کشمیر کی ریاست کو بھارتی وفاق میں جو خصوصی درجہ یعنی اندرونی خود مختاری حاصل تھی وہ مرکزی حکومت نے آہستہ آہستہ چھین لی ہے۔ایسے میں کشمیری عوام کو اپنی پہچان کو قائم رکھنے کی ایک ہی صورت نظر آرہی ہے وہ یہ کہ ان کی زمین پر ان کا اپنا کنٹرول رہے۔ ریاست میں مستقل باشندگی کا قانون نافذ ہے جس کی رو سے کوئی غیر ریاستی باشندہ یہاں زمین نہیں خرید سکتا ۔ شیخ محمد عبداللہ نے جب غیر ریاستی صنعت کاروں کو زمین لیز پر دینے کے لیے اسمبلی میں قانون پاس کروایا تو اس پر لوگ اب تک ان سے بیزار ہیں۔ پچھلے سال ریاستی حکومت نے سیاحتی مرکز گلمرگ میں ہوٹلوں کی تعمیر کے لیے غیر ریاستی سرمایہ کاروں کو زمین لیز پر فراہم کرنے کی بات کی تھی تو اس کی اس قدر مخالفت ہوگئی کہ حکومت کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ دنیا کے ہر خطے میں معاشی ترقی کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کیا جاتا ہے لیکن کشمیر کے لوگ اپنی پہچان کو بچانے کے لیے غیر ریاستی سرمایہ کاروں کو بھی دور رکھنا چاہتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ ایک ایسے ادارے (شرائن بورڈ) کو زمین دئیے جانے پر سیخ پاہو گئے ہیں جو ریاستی اسمبلی کے سامنے خود کو جوابدہ نہیں مانتا۔
|